شارب لکھنوی کی غزل

    محبت ہٹ رہی ہے درمیاں سے

    محبت ہٹ رہی ہے درمیاں سے زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے وہ منزل سخت ہے ہر امتحاں سے محبت رخ بدلتی ہے جہاں سے ہزاروں ماہ و انجم ہیں تہ خاک زمیں کچھ کم نہیں ہے آسماں سے منور ہیں ابھی تک وہ مقامات میں تیرے ساتھ گزرا ہوں جہاں سے زمیں کی پستیوں میں کھو گئے ہیں زمیں ٹکرانے والے آسماں ...

    مزید پڑھیے

    خود بخود عالم دل زیر و زبر ہوتا ہے

    خود بخود عالم دل زیر و زبر ہوتا ہے نیچی نظروں میں قیامت کا اثر ہوتا ہے دید کیا چیز ہے جلووں میں نظر کھو جانا ورنہ جلوہ کہیں پابند نظر ہوتا ہے اہل ہمت کے قدم اس سے الگ اٹھتے ہیں رخ زمانے کی ہواؤں کا جدھر ہوتا ہے تیری دنیا میں کہیں پر بھی کروں میں سجدہ تیرا جلوہ تو مرے پیش نظر ...

    مزید پڑھیے

    یہ زندگی تو بہت کم ہے دوستی کے لئے

    یہ زندگی تو بہت کم ہے دوستی کے لئے کہاں سے وقت نکلتا ہے دشمنی کے لئے یہ آتی جاتی ہوئی سانس زندگی کے لئے اک امتحان مسلسل ہے آدمی کے لئے یہ عہد نو کا اندھیرا ارے معاذ اللہ ترس رہے ہیں چراغ اپنی روشنی کے لئے انہیں گلوں کا تبسم تو دیکھ لینے دو تمام عمر جو ترسا کئے ہنسی کے لئے یہ ...

    مزید پڑھیے

    بنا کے اک نئی منزل گزر گئے ہوتے

    بنا کے اک نئی منزل گزر گئے ہوتے جدھر کوئی نہیں جاتا ادھر گئے ہوتے پئے سکوں نہ اگر ہم ٹھہر گئے ہوتے تو آج تا حد شمس و قمر گئے ہوتے غم حیات سے ہم بھی جو ڈر گئے ہوتے تو قید زیست میں رہ کے بھی مر گئے ہوتے جو میکدے میں ذرا تم ٹھہر گئے ہوتے نظر کے زور سے پیمانے بھر گئے ہوتے نہ لفظ گل کو ...

    مزید پڑھیے

    کب میرے واسطے کوئی مشکل نہیں رہی

    کب میرے واسطے کوئی مشکل نہیں رہی کب موت زندگی کے مقابل نہیں رہی دنیا کی دوستی کا تو کیا ذکر کیجیے دنیا تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہی یوں میری زندگی ہے ہر اک شے سے دور دور جیسے یہ کائنات میں شامل نہیں رہی تصویر انقلاب بنا جا رہا ہوں میں اب میری مستقل کوئی منزل نہیں رہی اظہار بے ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اتنی ہی قدر زندگانی ہوتی جاتی ہے

    مجھے اتنی ہی قدر زندگانی ہوتی جاتی ہے کسی کی جتنی مجھ پر مہربانی ہوتی جاتی ہے خدا معلوم یہ کیسا زمانہ آتا جاتا ہے کہ ہر ہر سانس اب تو امتحانی ہوتی جاتی ہے محبت کرنے والا سوئے منزل بڑھتا جاتا ہے جو مشکل آتی جاتی ہے وہ پانی ہوتی جاتی ہے جدھر جاؤ مصیبت ہے جدھر دیکھو مصیبت ...

    مزید پڑھیے

    ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے

    ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے کانٹوں میں آرام لیا ہے چاہے جدھر لے جائے محبت اب تو دامن تھام لیا ہے کاش وہی آرام سے رہتا جس نے مرا آرام لیا ہے حسن نے جب ٹھوکر کھائی ہے عشق نے بازو تھام لیا ہے ساقی کا احساں نہیں ہم پر خون دیا ہے جام لیا ہے ٹھوکر کھائی بڑھ گئے آگے ناکامی سے کام لیا ...

    مزید پڑھیے

    اگر ان بازووں میں دم نہیں ہے

    اگر ان بازووں میں دم نہیں ہے تو گلشن بھی قفس سے کم نہیں ہے مرے ساز جنوں کے چھیڑنے کو کلی کا اک تبسم کم نہیں ہے مجھے دنیا مرے عالم میں دیکھے ہر اک عالم مرا عالم نہیں ہے نہ دے مجھ کو فریب عشق دنیا فریب زندگی کچھ کم نہیں ہے غم توہین مے خانہ ہے شاربؔ مجھے تشنہ لبی کا غم نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    ہمارے عزم سفر کے آگے سوال لیل و نہار کیا ہے

    ہمارے عزم سفر کے آگے سوال لیل و نہار کیا ہے غم محبت اٹھا لیا ہے تو گردش روزگار کیا ہے امید فردا پہ جینے والو حیات کا اعتبار کیا ہے اٹھو کہ منزل بلا رہی ہے چلو کہ اب انتظار کیا ہے بکھرتے پھولوں نہ ہم سے پوچھو ہمیں تو اب یاد ہی نہیں ہے چلو یہ اہل چمن سے پوچھیں سکون کیا ہے قرار کیا ...

    مزید پڑھیے

    گلشن میں بڑے زور کا طوفان اٹھا ہے

    گلشن میں بڑے زور کا طوفان اٹھا ہے جب بھی کوئی پھولوں کا نگہبان اٹھا ہے دنیا کے بدلنے کا فرشتے نہیں آئے جب جب بھی اٹھا ہے کوئی انسان اٹھا ہے سینے کے لئے دامن گل فصل خزاں میں ہر بار کوئی چاک گریباں اٹھا ہے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہتا مرے ساقی شاربؔ تری محفل سے پشیمان اٹھا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3