تفکرات زمانہ سے ہو کے بیگانے

تفکرات زمانہ سے ہو کے بیگانے
یہ کس خیال میں الجھے ہوئے ہیں دیوانے


ہر ایک ہنستا ہے لیکن یہ کوئی کیا جانے
یہ بن گئے کہ بنائے گئے ہیں دیوانے


نگاہ عشق میں شاہ و گدا برابر ہیں
نگاہ عشق کوئی امتیاز کیا جانے


کسی کے اٹھنے سے سونی نہ ہوگی بزم کوئی
بہار شمع سلامت ہزار پروانے


وہی جہاں کے نشیب و فراز کو سمجھے
چلے جو راہ محبت کی ٹھوکریں کھانے


یہاں خوشی تو نہیں ہے مگر پئے تسکیں
غموں کا نام خوشی رکھ لیا ہے دنیا نے


یہ جانتا ہوں کہ طے کر رہا ہوں راہ حیات
کہاں پہ ہے مری منزل اسے خدا جانے


فنا ہے سب کو ان آبادیوں پہ ناز نہ کر
زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں پروانے


جو اپنے ہاتھ سے کوئی پلا دے اے شاربؔ
اس ایک جام پہ صدقے ہزار پیمانے