شہناز مزمل کی غزل

    ہجر کی رات ہے اس کو شب ماتم نہ بنا

    ہجر کی رات ہے اس کو شب ماتم نہ بنا وصل لمحوں کو سجا زمزمۂ غم نہ بنا کرچیاں ٹوٹ کے بکھری ہیں ترے چاروں طرف ریزۂ دل کو اٹھا زخم کا مرہم نہ بنا گر بچھڑنا ہے تو اک فیصلہ کر لیتے ہیں اس کو تقدیر سمجھ درد کا موسم نہ بنا سارے سپنے بہا لے جائیں گے آنسو تیرے نیم خواب آنکھوں کو تو دیدۂ پر ...

    مزید پڑھیے

    نوائے وقت کا اترا ابھی خمار نہیں

    نوائے وقت کا اترا ابھی خمار نہیں ابھی تلک تو مجھے خود پہ اختیار نہیں ہوا ہے یہ بھی کہ صحرا میں پھول کھلتے ہیں سفر نصیب کے حصے میں کیوں بہار نہیں طلسم جان کے سب راز کھول دوں کیسے نہیں نہیں مجھے خود پر بھی اعتبار نہیں شب سیاہ چھپاتی ہے میرے داغوں کو اسے یہ کہہ دو کہ گیسو ابھی ...

    مزید پڑھیے

    دوست بن کر دوستوں کی بے وفائی دیکھیے

    دوست بن کر دوستوں کی بے وفائی دیکھیے کج ادائی دیکھیے بے اعتنائی دیکھیے رہ گزار شوق میں ہم رکھ تو بیٹھے ہیں قدم جانے کب منزل پہ ہو اپنی رسائی دیکھیے کس بلا کا سحر تھا ان کی نگاہ ناز میں دل نے خود بڑھ کر نظر کی چوٹ کھائی دیکھیے میرے سجدوں کے مقدر میں وہ سنگ در نہ تھا میری پیشانی ...

    مزید پڑھیے

    چاک پہ رکھے ہیں تصویر بنا دی جائے

    چاک پہ رکھے ہیں تصویر بنا دی جائے ورنہ اس جگہ سے یہ مٹی ہٹا دی جائے تم نے کیا سوچ کے رکھا ہے یہاں کوزہ گرو گر نہیں ڈھالنا تو وجہ بتا دی جائے رنگ و خوشبو تو ازل سے مری کمزوری ہے سبز موسم سے مری دنیا سجا دی جائے ہو گیا کوچہ تہمت میں تو جینا مشکل جرم کی اب تو سزا ہم کو سنا دی ...

    مزید پڑھیے

    جو تھے منزلوں کے فراق میں سبھی راستے وہ مٹا دیے

    جو تھے منزلوں کے فراق میں سبھی راستے وہ مٹا دیے سر شام ہی جو بھڑک اٹھے وہ الاؤ میں نے بجھا دیے میں فریب‌ وقت میں قید تھی رخ کارواں نہ بدل سکی کڑی دھوپ میں جو ملے شجر تو وہیں پہ ڈیرے جما دیے تھا عجیب میرا بھی ناخدا اسے آزمانا تھا حوصلہ مجھے ظلمتوں کے سپرد کر کے چراغ سارے بڑھا ...

    مزید پڑھیے

    چند گھڑیاں نہیں گزری تھیں شناسائی کو

    چند گھڑیاں نہیں گزری تھیں شناسائی کو شعلہ اندام چلے آئے پذیرائی کو کون جانے وہ حسیں تھا کہ تمنا میری ڈھونڈ لائی تھی کہیں سے مری رسوائی کو عکس ٹھہرا تھا مرے دیدۂ تر میں کب سے آئینہ ڈھونڈ نہ پایا رخ زیبائی کو ٹوٹ کر ریزہ ہوئے جاتے ہیں سب خواب مرے کہہ دو گریہ نہ کرے چشم تماشائی ...

    مزید پڑھیے

    چراغ دل جلانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے

    چراغ دل جلانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے سراغ درد پانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے حریر و پرنیاں خوشبو جڑاؤ ہاتھ کے کنگن گل و لالہ سجانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے کہیں پتھر نہ ہو جائیں مری یہ منتظر آنکھیں پلٹ کر تم نے آنے میں بہت ہی دیر کر دی ہے چلو کچھ مختصر کر دیں غم و آلام کا قصہ تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    مری طرح سے کہیں خاک چھانتا ہوگا

    مری طرح سے کہیں خاک چھانتا ہوگا وہ اپنی ذات کے صحرا میں کھو گیا ہوگا شرار راکھ میں باقی رہا نہیں کوئی چراغ دل کا مرے جل کے بجھ گیا ہوگا جو میری جھیل سی آنکھوں میں ڈوب ڈوب گیا ستارہ وار کہیں خود کو ڈھونڈھتا ہوگا پھر آج قریۂ جاں پر عذاب اترے ہیں کسی نے پھر نیا ترکش سجا لیا ...

    مزید پڑھیے

    اندھیری رات میں ہم نے دیے جلائے ہیں

    اندھیری رات میں ہم نے دیے جلائے ہیں چلی ہیں آندھیاں پھر بھی نہ ٹمٹمائے ہیں ہیں راہ حق کے مسافر ذرا سمجھ لینا خدائے نور نے رستے ہمیں دکھائے ہیں زمانہ ہم کو بدل پایا ہی نہیں لیکن سبق زمانے کو ہم نے بہت سکھائے ہیں ہمیں مٹانے کی کاوش بھی رائیگاں سمجھو ہم حق کی راہ سے باطل مٹا کے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کو اپنے لیے سمجھا اثاثہ دل کا

    عشق کو اپنے لیے سمجھا اثاثہ دل کا اور اس دل نے بنا ڈالا تماشا دل کا بعد تیرے کوئی نظروں میں سمایا ہی نہیں اب صدا دیتا نہیں خالی یہ کاسہ دل کا ایک طوفان ہے روکے سے نہیں جو رکتا موج نے توڑ دیا ہو نہ کنارا دل کا دو گھڑی چین سے جینے نہیں دیتا ناداں جان پاتے ہی نہیں کیا ہے ارادہ دل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2