شہناز مزمل کی غزل

    غبار راہ بنی میں رہ غبار میں ہوں

    غبار راہ بنی میں رہ غبار میں ہوں نہ جانے کون ہے میں جس کے انتظار میں ہوں وہ مجھ سے ملنے پلٹ کر ضرور آئے گا بہت زمانے سے امید کے حصار میں ہوں یہ جبر و قدر کا چکر ازل سے چلتا ہے کبھی یہ سوچا نہیں کس کے اختیار میں ہوں یہ لوگ کون ہیں کیسے ہیں کچھ نہیں معلوم میں بس ہجوم کا حصہ ہوں کس ...

    مزید پڑھیے

    حرص و ہوس کے آگے نہ کچھ بھی دکھائی دے

    حرص و ہوس کے آگے نہ کچھ بھی دکھائی دے انسان اپنے قد سے بھی چھوٹا دکھائی دے اپنے دلوں کا کھوٹ نظر آتا نہیں ہے سکہ پرایا ہو تو وہ کھوٹا دکھائی دے کوئی تو ایسا شخص مجھے ڈھونڈ کے لا دو انسانیت کا بوجھ جو ڈھوتا دکھائی دے کیا نازکی ہے آج دل فتنہ ساز کی خود کو لگے جو ٹھیس تو روتا ...

    مزید پڑھیے

    وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے

    وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے دئے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر اے تند و تیز ہوا تجھ کو برہمی نہ رہے بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے کوئی بھی لمحہ گزرتا نہیں ہے تیرے بغیر تعلقات میں ایسی بھی چاشنی نہ ...

    مزید پڑھیے

    غم مجھ سے کسی طور سمیٹا نہیں جاتا

    غم مجھ سے کسی طور سمیٹا نہیں جاتا پہرا ہے مری سوچ پہ بولا نہیں جاتا اب دل کے دھڑکنے کی صدا بھی نہیں آتی اور قریۂ خواہش سے بھی نکلا نہیں جاتا سجدے کے نشانوں سے جبیں زخم ہوئی ہے اور تجھ سے مقدر مرا بدلا نہیں جاتا سورج کے نکلنے کی خبر مجھ کو بھی کرنا ظلمت کدۂ شب میں تو ٹھہرا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2