چاک پہ رکھے ہیں تصویر بنا دی جائے

چاک پہ رکھے ہیں تصویر بنا دی جائے
ورنہ اس جگہ سے یہ مٹی ہٹا دی جائے


تم نے کیا سوچ کے رکھا ہے یہاں کوزہ گرو
گر نہیں ڈھالنا تو وجہ بتا دی جائے


رنگ و خوشبو تو ازل سے مری کمزوری ہے
سبز موسم سے مری دنیا سجا دی جائے


ہو گیا کوچہ تہمت میں تو جینا مشکل
جرم کی اب تو سزا ہم کو سنا دی جائے


آئنہ خانے میں حیران سے سب بیٹھے ہیں
ان زمیں زادوں کی حیرت ہی مٹا دی جائے


فیصلہ پار اترنے کا کیا ہے شہنازؔ
اب ذرا آخری کشتی بھی جلا دی جائے