چراغ دل جلانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے

چراغ دل جلانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے
سراغ درد پانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے


حریر و پرنیاں خوشبو جڑاؤ ہاتھ کے کنگن
گل و لالہ سجانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے


کہیں پتھر نہ ہو جائیں مری یہ منتظر آنکھیں
پلٹ کر تم نے آنے میں بہت ہی دیر کر دی ہے


چلو کچھ مختصر کر دیں غم و آلام کا قصہ
تمہیں ہم نے بھلانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے


جنوں بے باک نے ساری حدوں کو توڑ ڈالا ہے
خرد نے مات کھانے میں بہت ہی دیر کر دی ہے


نمو کی رت بہت مدت سے تاریکی میں ٹھہری ہے
نئے سورج نے آنے میں بہت ہی دیر کر دی ہے