نوائے وقت کا اترا ابھی خمار نہیں

نوائے وقت کا اترا ابھی خمار نہیں
ابھی تلک تو مجھے خود پہ اختیار نہیں


ہوا ہے یہ بھی کہ صحرا میں پھول کھلتے ہیں
سفر نصیب کے حصے میں کیوں بہار نہیں


طلسم جان کے سب راز کھول دوں کیسے
نہیں نہیں مجھے خود پر بھی اعتبار نہیں


شب سیاہ چھپاتی ہے میرے داغوں کو
اسے یہ کہہ دو کہ گیسو ابھی سنوار نہیں


مسافتوں کی تھکن سے یہ جسم و جان ہے چور
سفر طویل ہے رستے میں راہ گزار نہیں


کبھی تو تشنگی کم ہو ہی جائے گی لیکن
زمانہ بیت گیا اترے دریا پار نہیں