ہجر کی رات ہے اس کو شب ماتم نہ بنا

ہجر کی رات ہے اس کو شب ماتم نہ بنا
وصل لمحوں کو سجا زمزمۂ غم نہ بنا


کرچیاں ٹوٹ کے بکھری ہیں ترے چاروں طرف
ریزۂ دل کو اٹھا زخم کا مرہم نہ بنا


گر بچھڑنا ہے تو اک فیصلہ کر لیتے ہیں
اس کو تقدیر سمجھ درد کا موسم نہ بنا


سارے سپنے بہا لے جائیں گے آنسو تیرے
نیم خواب آنکھوں کو تو دیدۂ پر نم نہ بنا


اے مصور ترے ان ہاتھوں میں لرزش کیوں ہے
رنگ تصویر میں بھر لے اسے مدھم نہ بنا


ہر مسافر میں تعلق ہو ضروری تو نہیں
ان کا دکھ درد سمجھ پیار کا سنگم نہ بنا


اب تو یادوں کے سوا کچھ نہیں شہنازؔ کے پاس
اپنی آواز دبا اک نیا سرگم نہ بنا