شاہدہ لطیف کی غزل

    سفر ہے دھوپ کا اور ساتھ سائے رکھتی ہوں

    سفر ہے دھوپ کا اور ساتھ سائے رکھتی ہوں کسی کی یاد کو دل میں چھپائے رکھتی ہوں مرا خیال تو کوئی بدل نہیں سکتا جو رائے رکھتی ہوں بس ایک رائے رکھتی ہوں ہوا ہو کتنی ہی سرکش فضا ہو یخ بستہ میں اپنے دل کا الاؤ جلائے رکھتی ہوں اداس میں کبھی تنہائیوں میں بھی نہ رہی ترے خیال کی محفل ...

    مزید پڑھیے

    اپنے دشمن کو کبھی پیار نہیں دے سکتے

    اپنے دشمن کو کبھی پیار نہیں دے سکتے دست قاتل میں تو تلوار نہیں دے سکتے ان ثمر دار درختوں سے ہمیں کیا حاصل جو ہمیں سایۂ اشجار نہیں دے سکتے ان کی شائستگیٔ شوق ہے تکمیل طلب اپنے جذبوں کو جو معیار نہیں دے سکتے کیوں تعلق سے پگھل جاتا ہے دل کا پتھر راز یہ صاحب اسرار نہیں دے ...

    مزید پڑھیے

    عجب عجیب غم احتمال رکھتے ہوئے

    عجب عجیب غم احتمال رکھتے ہوئے کسی کا خواب کسی کا خیال رکھتے ہوئے انا بھی کوہ گراں کی طرح ہے پھر درپیش ترے حضور طلب کا سوال رکھتے ہوئے کوئی خزینۂ راحت نہ اپنے کام آیا دراز دل میں ذرا سا ملال رکھتے ہوئے میں آفتاب ہوں لیکن اک اعتماد کے ساتھ چمک رہی ہوں میں رنج زوال رکھتے ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کو دیکھ رہی ہے نظر تمہارے سوا

    سبھی کو دیکھ رہی ہے نظر تمہارے سوا بجھا بجھا سا ہے دل کا نگر تمہارے سوا یہ ساحلوں کے کنارے یہ کشتیاں یہ ہوا فقط ہے منظر خاموش تر تمہارے سوا نہیں ہو تم تو کوئی منظر بہار نہیں ہزار گل ہوں معطر اگر تمہارے سوا یہ بستیاں بڑی گنجان ہیں مگر ان میں کسی گلی میں نہیں کوئی گھر تمہارے ...

    مزید پڑھیے

    رواجوں میں رواداری بہت ہے

    رواجوں میں رواداری بہت ہے یہاں رشتوں کی بیماری بہت ہے بہت ہی ٹوٹ کر ملتی ہے دنیا مگر اس میں اداکاری بہت ہے کہیں پہچان میں دھوکہ نہ کھانا کہ چہروں پر ریا کاری بہت ہے اٹھا لیں گے کرن کا بوجھ کل ہم ابھی یہ رات ہی بھاری بہت ہے مگر ہے شرط سانسوں کی ضمانت سفر کی یوں تو تیاری بہت ہے

    مزید پڑھیے

    میں تجھ کو سوچنے بیٹھی تو یہ خیال آیا

    میں تجھ کو سوچنے بیٹھی تو یہ خیال آیا کہ آفتاب محبت کو کیوں زوال آیا ہماری حالت دل دیکھنے کے قابل تھی تری جدائی کا جب سامنے سوال آیا خدا کے فضل سے حاصل سدا عروج رہا ہماری سوچ کے سورج کو کب زوال آیا ہوس پرست اندھیروں نے اس کو گھیر لیا افق پہ جب بھی کسی کا مہ جمال آیا ہنر کی دولت ...

    مزید پڑھیے

    نظر پکار رہی ہے تمہی چلے آؤ

    نظر پکار رہی ہے تمہی چلے آؤ مری حیات مری زندگی چلے آؤ یہ سونا سونا سا آنگن پکارتا ہے تمہیں بہت گھنیری ہے یہ تیرگی چلے آؤ غرور ظلمت شب تم ہی توڑ سکتے ہو بنوں چراغ کی تم روشنی چلے آؤ یہ ہونٹ سوکھ نہ جائیں تمہیں صدا دے کر بچھڑ نہ جائے کہیں ہر خوشی چلے آؤ ان آشناؤں میں نا آشنا ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2