میں تجھ کو سوچنے بیٹھی تو یہ خیال آیا

میں تجھ کو سوچنے بیٹھی تو یہ خیال آیا
کہ آفتاب محبت کو کیوں زوال آیا


ہماری حالت دل دیکھنے کے قابل تھی
تری جدائی کا جب سامنے سوال آیا


خدا کے فضل سے حاصل سدا عروج رہا
ہماری سوچ کے سورج کو کب زوال آیا


ہوس پرست اندھیروں نے اس کو گھیر لیا
افق پہ جب بھی کسی کا مہ جمال آیا


ہنر کی دولت بے مثل یوں نہیں پائی
جلا ہے خون جگر تب کہیں کمال آیا


کئی تھے اہل طلب لاکھ خوبیوں کے مگر
ہماری زیست میں اک شخص بے مثال آیا