اپنے دشمن کو کبھی پیار نہیں دے سکتے
اپنے دشمن کو کبھی پیار نہیں دے سکتے
دست قاتل میں تو تلوار نہیں دے سکتے
ان ثمر دار درختوں سے ہمیں کیا حاصل
جو ہمیں سایۂ اشجار نہیں دے سکتے
ان کی شائستگیٔ شوق ہے تکمیل طلب
اپنے جذبوں کو جو معیار نہیں دے سکتے
کیوں تعلق سے پگھل جاتا ہے دل کا پتھر
راز یہ صاحب اسرار نہیں دے سکتے
شاہدہؔ تاج محل اب کوئی بنتا بھی نہیں
لوگ ایسا کوئی شاہکار نہیں دے سکتے