لذت گریہ سے بھی دل کی خلش کم تو نہیں

لذت گریہ سے بھی دل کی خلش کم تو نہیں
اشک گوہر ہی سہی زخم کا مرہم تو نہیں


یہ بھی ممکن ہے غم ہجر غم دہر بنے
مشکلیں عشق کی سنگ رہ آدم تو نہیں


غم عطا کرکے نہ سمجھو کہ مجھے شاد کیا
دل میں سب کچھ ہے مگر حوصلۂ غم تو نہیں


کارواں اور چلے اور چلے اور چلے
رہنما صاحب منزل ہے مگر ہم تو نہیں


چہرۂ شب پہ کچھ انوار سحر ہیں لیکن
ہم جس امید میں جاگے تھے وہ عالم تو نہیں