یہ عالم ہے تو پھر کیوں ہوں حوادث سے پریشاں ہم

یہ عالم ہے تو پھر کیوں ہوں حوادث سے پریشاں ہم
قفس ہم آشیاں ہم خار ہم گل ہم گلستاں ہم


ہمیں دنیا کی طوفانی ہواؤں میں بھڑکنے دو
نہیں ہوں گے نہیں ہوں گے چراغ زیر داماں ہم


مزا پایا ہے اتنا مشکلات زندگانی میں
کہ دیکھے جائیں گے تا حشر یہ خواب پریشاں ہم


زمانہ ہم کو طوفاں میں پھنسا کر مطمئن کیوں ہو
سمجھتا ہے کہ ہیں پروردۂ آغوش طوفاں ہم


بڑھے جائیں گے تنہا منزل مقصود کی جانب
اٹھائیں گے نہ ہرگز قافلے والوں کا احساں ہم


ہماری بے نشانی بھی نشاں کا حکم رکھتی ہے
ہمیں دنیا مٹائے گی مگر ہوں گے نمایاں ہم


یہ دور انتہا ہے اس میں فکر ساز و ساماں کیا
رہے ہیں ابتدا سے بے نیاز ساز و ساماں ہم