پھر تلاش راحت میں درد کا پیام آیا

پھر تلاش راحت میں درد کا پیام آیا
ہم جہاں سے گزرے تھے پھر وہی مقام آیا


تیرے غم کی راہوں میں وہ بھی اک مقام آیا
موت کی تمنا تھی موت کا سلام آیا


شب گزارنے والو حاصل سحر کیا تھا
اک پیام بیداری وہ بھی نا تمام آیا


یوں عروج پر آئی داستاں محبت کی
دل کا ذکر چھیڑا تھا لب پہ ان کا نام آیا


ہم ہی رہ گئے پیاسے ورنہ بزم ساقی میں
جس طرف نہ تھا کوئی اس طرف بھی جام آیا


رفتہ رفتہ یاد ان کی بن گئی غم دنیا
زندگی کا سرمایہ زندگی کے کام آیا


فصل گل مبارک ہو یہ بھی دیکھتے رہئے
کس نے توڑ دی زنجیر کون زیر دام آیا


میرے جام سے شاہدؔ مے کبھی نہ چھلکی تھی
میکشوں کی محفل میں کون تشنہ کام آیا