تڑپ الم میں نہیں ہے سکوں خوشی میں نہیں
تڑپ الم میں نہیں ہے سکوں خوشی میں نہیں
بہت دنوں سے کوئی لطف زندگی میں نہیں
اگر یہ سچ ہے تو لازم ہے خود فراموشی
خود آگہی کے سوا کچھ خود آگہی میں نہیں
جمی ہوئی ہے شب ہجر آسماں پہ نظر
تری جھلک تو ستاروں کی روشنی میں نہیں
جو اہل دل ہو تو مفہوم خامشی سمجھو
یہ کیا کہا کوئی مفہوم خامشی میں نہیں
کمال درد پہ نازاں ہیں عاشقی والے
مآل درد ابھی ذہن عاشقی میں نہیں
بس اب تو ان کی نظر یاد آ گئی شاہدؔ
جو بات ان کی نظر میں ہے شاعری میں نہیں