دل ہے ایک ہی لیکن نام دل بدلتا ہے

دل ہے ایک ہی لیکن نام دل بدلتا ہے
سج گیا تو گلشن ہے لٹ گیا تو صحرا ہے


میرا درد محرومی اک نیا تقاضا ہے
عشق رائیگاں کیوں ہو تم نہیں تو دنیا ہے


حسن ہے بہاریں ہیں شوق ہے تماشا ہے
عاشقی کی نسبت سے زندگی گوارا ہے


درد و غم کی راہوں میں ساتھ چھوڑنا کیسا
دور تک چلے آؤ دور تک اندھیرا ہے


کل ترے تصور نے محفلیں سجائی تھیں
آج دل کی دنیا میں تیری یاد تنہا ہے


ظلمتوں کا رونا کیا اہل کارواں ہشیار
اس طرف ہیں رہزن بھی جس طرف اجالا ہے


روشنی میں ڈھلتی ہے دل کے خون کی سرخی
تب کہیں سر مژگاں اک چراغ جلتا ہے


گرد راہ انساں ہیں ماہ و کہکشاں شاہدؔ
جستجوئے پیہم کا حشر کس نے دیکھا ہے