Shahid Makuli

شاہد ماکلی

جدید سائنسی جمالیات کے رجحان ساز شاعر

شاہد ماکلی کی غزل

    مرے غیاب میں جس نے ہنسی اڑائی مری

    مرے غیاب میں جس نے ہنسی اڑائی مری کسی نے کیا اسے حالت نہیں بتائی مری کشش کا رد کشش ہے عمل کا رد عمل بدن سے لمحہ بہ لمحہ گریز پائی مری میں ایک بار سمندر کو جاتا دیکھا گیا پھر اس کے بعد کہیں سے خبر نہ آئی مری الگ نہ کر سکا اب تک میں اس کے اجزا کو بعید کیا ہے کہ حیرت ہو کیمیائی ...

    مزید پڑھیے

    یہ غم رہے نہ رہے غم نگاری رہ جائے

    یہ غم رہے نہ رہے غم نگاری رہ جائے ہمارے بعد بھی حالت ہماری رہ جائے یہ پھول جھڑنے سے بچ جائیں منجمد ہو کر شجر پہ یوں ہی اگر برف باری رہ جائے خواص اور بھی معلوم ہو سکیں شاید ہماری خاک پہ تحقیق جاری رہ جائے مری زمین کے موسم بدلتے جاتے ہیں مگر خدا کرے خوشبو تمہاری رہ جائے وہ دن نہ ...

    مزید پڑھیے

    قباحت ایسی بھی کیا ہے نظر نہ آنے میں

    قباحت ایسی بھی کیا ہے نظر نہ آنے میں کہ دن گزار دیں لوگوں سے منہ چھپانے میں کھڑے ہوئے تھے کہیں وقت کے کنارے پر پھسل کے جا گرے اک اور ہی زمانے میں تو اتنے فالتو ہو جاتے ہیں یہ خواب اک دن کہ پھینک دیتے ہیں ان کو کباڑ خانے میں یہ ایک عمر میں جانا یقینی کچھ بھی نہیں بقایا عمر کٹی پھر ...

    مزید پڑھیے

    جاں کبھی دن سے کبھی رات سے ٹکراتی ہے

    جاں کبھی دن سے کبھی رات سے ٹکراتی ہے ایک کشتی کئی خطرات سے ٹکراتی ہے دل کی مڈبھیڑ تری یاد سے ہوتی ہے کہیں تیرگی نور کے ذرات سے ٹکراتی ہے ایک حالت کا کوئی حال نہیں ہے مجھ میں ایک حالت ہے کہ حالات سے ٹکراتی ہے آہ کے چیتھڑے آفاق میں اڑتے ہیں کہیں بے کسی ارض و سماوات سے ٹکراتی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں شب کے کینوس پر نیا دن ابھر رہا ہے

    کہیں شب کے کینوس پر نیا دن ابھر رہا ہے مرا داغ نارسائی مرا نقش بن گیا ہے میں چلا ہوں جنگلوں سے کسی باغ آتشیں تک مرا زاد خار و خس ہے مرا رنگ اڑا ہوا ہے جو ہے بزم ہم سے خالی وہ رہے گی غم سے خالی جو جگہ خوشی سے پر ہے وہ ہمارا ہی خلا ہے ابھی دیکھئے گا ہر سو مرا خاک بوس ہونا کہ ہوائیں چل ...

    مزید پڑھیے

    ایک تتلی کے پر مارنے سے ہواؤں کی لہروں میں طوفان پیدا ہوا

    ایک تتلی کے پر مارنے سے ہواؤں کی لہروں میں طوفان پیدا ہوا کیسے چھوٹے وقوعے سے کتنے بڑے اک وقوعے کا امکان پیدا ہوا شر پسندی کا شعلہ دلوں تک جو پہنچا تو جل کر شبیہیں فنا ہو گئیں نذر آتش ہوئیں آئنوں کی دکانیں تو حیرت کا بحران پیدا ہوا اول اول یہ کردار مذکور تھا زندگی کی پرانی ...

    مزید پڑھیے

    یہ کائناتی ذہانت کا دور ہے بھائی

    یہ کائناتی ذہانت کا دور ہے بھائی یہاں خدا کا تصور کچھ اور ہے بھائی سناؤ کیسے ہو کیسے ہیں چاند پر حالات زمین پر تو وہی ظلم و جور ہے بھائی کوئی پلک بھی جھپکتا نہیں تماشے میں مداریوں کا طلسمانہ طور ہے بھائی وطن کی صبح سے ہجرت کی رات دور نہیں حرا سے چند قدم غار ثور ہے بھائی تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    ذہانت نے نئی دنیا کی بوطیقا مرتب کی

    ذہانت نے نئی دنیا کی بوطیقا مرتب کی کہانی حاشیے پر جا چکی شاعر کے منصب کی تری یہ گول دنیا تو کنواں ہے موت کا یا رب میں چکرایا توازن میں تو پائی داد کرتب کی نہ جانے آنکھ نے کیا دیکھ کر توسیع اسے دی ہے وگرنہ خواب کی مدت تو پوری ہو چکی کب کی صبا خوشبو کو آندھی گرد کو آگے بڑھاتی ...

    مزید پڑھیے

    بلائیں پردۂ سیمیں پہ جلوہ گر ہوں گی

    بلائیں پردۂ سیمیں پہ جلوہ گر ہوں گی نئی کہانی کی بنیادیں خوف پر ہوں گی پھلے گا اور ابھی نارسائی کا گلشن فغاں کی ٹہنیاں کچھ اور بارور ہوں گی چھڑی تو پھر نہ رکے گی حیاتیاتی جنگ ہماری زندگیاں خوف میں بسر ہوں گی جو عکس بند کرو گے ہماری وحشتوں کو تو زومبی فلم سے بڑھ کر وہ مشتہر ہوں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کچھ اور تو اپنے قریں پہنچ سکتے

    نہیں کچھ اور تو اپنے قریں پہنچ سکتے جہاں ہماری پہنچ ہے وہیں پہنچ سکتے کرن سے تیز ہے رفتار بے خیالی کی ہماری گرد کو تارے نہیں پہنچ سکتے ہمیں کہیں نہ پہنچنے دیا تساہل نے بدن نہ ہوتا تو شاید کہیں پہنچ سکتے تناظرات پہ روتے زیادہ بولتے کم ہماری چپ کو اگر نکتہ چیں پہنچ سکتے عمق میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2