Shahid Makuli

شاہد ماکلی

جدید سائنسی جمالیات کے رجحان ساز شاعر

شاہد ماکلی کی غزل

    یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے

    یہیں گرد و نواح میں گونجتی ہے مرے قرب و جوار سے پھوٹتی ہے کوئی دور دراز کی چاپ نہیں جو سکوت کے پار سے پھوٹتی ہے یہ جہان مجاز ہے عکس نما کسی اور جہاں کی حقیقتوں کا یہاں چاند ابھرتا ہے پانیوں سے دھنک آئنہ زار سے پھوٹتی ہے وہاں ساری شگفت تضاد سے ہے جہاں حیرتیں اوڑھ کے گھومتا ...

    مزید پڑھیے

    ابد کے طشت میں کچھ پھول اور ستارے لیے

    ابد کے طشت میں کچھ پھول اور ستارے لیے یہ میں ہوں دور سے آیا ہوا تمہارے لیے عجب تھی ان سے ملاقات پر تپاک مری وہ میرے خس کدے میں آ گئے شرارے لیے دیار گریہ کی گلیوں میں ایسی پھسلن ہے بشر گزرتے ہیں دیواروں کے سہارے لیے بچھا کے ان کو میں چاہے جدھر اتر جاؤں رواں ہوں ناؤ میں دریا کے دو ...

    مزید پڑھیے

    جہاں جہاں سے بھی جھلمل تری گزرتی ہے

    جہاں جہاں سے بھی جھلمل تری گزرتی ہے دلوں کو آئنہ کرتی ہوئی گزرتی ہے نجوم دونوں طرف صف بہ صف کھڑے ہوئے ہیں فضائے شب سے تری پالکی گزرتی ہے ترے بغیر ہمیں سانس تک نہیں آتی کبھی تو اس سے بھی مشکل گھڑی گزرتی ہے نشاط شام طلسمات کو دوام نہیں لہو سے موج شفق عارضی گزرتی ہے افق پہ رہتی ...

    مزید پڑھیے

    نہ خراب ہوتا میں دھوپ میں نہ اندھیری رات میں گھومتا

    نہ خراب ہوتا میں دھوپ میں نہ اندھیری رات میں گھومتا تو جو ساتھ ہوتا تو اور ہی کسی کائنات میں گھومتا ترے زرد خطے میں خاک اڑانے سے وقت ملتا اگر کبھی تو میں زندگی ترے سبز پوش علاقہ جات میں گھومتا یہ حجاب ہٹتا نگاہ سے یہ غبار چھٹتا جو راہ سے میں تری نشانیاں دیکھتا میں عجائبات میں ...

    مزید پڑھیے

    جہاز اک دن سمے کے دوسرے ساحل سے پہنچیں گے

    جہاز اک دن سمے کے دوسرے ساحل سے پہنچیں گے ہمارے حال تک کچھ لوگ مستقبل سے پہنچیں گے زمیں والو رصد گاہ زماں سے دیکھتے رہنا ہمارے عکس نوری سال کے جھلمل سے پہنچیں گے میں خود تو ہو چکا ہوں کائناتی دھول کا حصہ مرے ذرات تم تک گرد لا حاصل سے پہنچیں گے ہمیں دیکھو کہ کتنا سہل پہنچے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے سینے کے وسط میں اور ہی فضا ہے

    ہمارے سینے کے وسط میں اور ہی فضا ہے وہاں رتیں اور ہیں جہاں خط استوا ہے امید کو خوف خوف کو کھا رہی ہے غفلت غذائی زنجیر کی طرح دل کا سلسلہ ہے ہمارے رونے پہ ہنسنے لگتے ہیں آنے والے ہماری دیوار گریہ دیوار قہقہہ ہے تمام عالم پھرا ہوں پہنچا کہیں نہیں ہوں پہنچ مری نا رسائیوں کی جگہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2