مرے غیاب میں جس نے ہنسی اڑائی مری
مرے غیاب میں جس نے ہنسی اڑائی مری
کسی نے کیا اسے حالت نہیں بتائی مری
کشش کا رد کشش ہے عمل کا رد عمل
بدن سے لمحہ بہ لمحہ گریز پائی مری
میں ایک بار سمندر کو جاتا دیکھا گیا
پھر اس کے بعد کہیں سے خبر نہ آئی مری
الگ نہ کر سکا اب تک میں اس کے اجزا کو
بعید کیا ہے کہ حیرت ہو کیمیائی مری
نہ کچھ افق کا پتہ ہے نہ کچھ عمود کا ہے
نہ جانے کیسی فضا میں ہے پر کشائی مری
میں آپ تو کہیں اب تک پہنچ نہیں پایا
مگر جگہ جگہ پہنچی ہے نارسائی مری
مجھے تو عرصۂ برزخ تھا جاں کنی جیسا
قیامت آئی تو سانسوں میں سانس آئی مری
وضاحت اس کی کوئی اور کر سکے تو کرے
مری سمجھ سے تو باہر ہے بے نوائی مری
ہوا کے صفحے پہ فطرت نگاری کرتا رہوں
شجر قلم ہوں سمندر ہوں روشنائی مری
نکل پڑوں گا وہاں سے پھر اگلی دنیا کو
کبھی جو ایک جہاں تک ہوئی رسائی مری
کرن سے سانس کا مجموعہ نظم کرتا ہوں
ہوا کو علم ہے تالیف ہے ضیائی مری
زمیں کو جاتی ہے شاہدؔ نہ آسمانوں کو
جس ایک راہ گزر پر ہے نقش پائی مری