Shahid Makuli

شاہد ماکلی

جدید سائنسی جمالیات کے رجحان ساز شاعر

شاہد ماکلی کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    مرے غیاب میں جس نے ہنسی اڑائی مری

    مرے غیاب میں جس نے ہنسی اڑائی مری کسی نے کیا اسے حالت نہیں بتائی مری کشش کا رد کشش ہے عمل کا رد عمل بدن سے لمحہ بہ لمحہ گریز پائی مری میں ایک بار سمندر کو جاتا دیکھا گیا پھر اس کے بعد کہیں سے خبر نہ آئی مری الگ نہ کر سکا اب تک میں اس کے اجزا کو بعید کیا ہے کہ حیرت ہو کیمیائی ...

    مزید پڑھیے

    یہ غم رہے نہ رہے غم نگاری رہ جائے

    یہ غم رہے نہ رہے غم نگاری رہ جائے ہمارے بعد بھی حالت ہماری رہ جائے یہ پھول جھڑنے سے بچ جائیں منجمد ہو کر شجر پہ یوں ہی اگر برف باری رہ جائے خواص اور بھی معلوم ہو سکیں شاید ہماری خاک پہ تحقیق جاری رہ جائے مری زمین کے موسم بدلتے جاتے ہیں مگر خدا کرے خوشبو تمہاری رہ جائے وہ دن نہ ...

    مزید پڑھیے

    قباحت ایسی بھی کیا ہے نظر نہ آنے میں

    قباحت ایسی بھی کیا ہے نظر نہ آنے میں کہ دن گزار دیں لوگوں سے منہ چھپانے میں کھڑے ہوئے تھے کہیں وقت کے کنارے پر پھسل کے جا گرے اک اور ہی زمانے میں تو اتنے فالتو ہو جاتے ہیں یہ خواب اک دن کہ پھینک دیتے ہیں ان کو کباڑ خانے میں یہ ایک عمر میں جانا یقینی کچھ بھی نہیں بقایا عمر کٹی پھر ...

    مزید پڑھیے

    جاں کبھی دن سے کبھی رات سے ٹکراتی ہے

    جاں کبھی دن سے کبھی رات سے ٹکراتی ہے ایک کشتی کئی خطرات سے ٹکراتی ہے دل کی مڈبھیڑ تری یاد سے ہوتی ہے کہیں تیرگی نور کے ذرات سے ٹکراتی ہے ایک حالت کا کوئی حال نہیں ہے مجھ میں ایک حالت ہے کہ حالات سے ٹکراتی ہے آہ کے چیتھڑے آفاق میں اڑتے ہیں کہیں بے کسی ارض و سماوات سے ٹکراتی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں شب کے کینوس پر نیا دن ابھر رہا ہے

    کہیں شب کے کینوس پر نیا دن ابھر رہا ہے مرا داغ نارسائی مرا نقش بن گیا ہے میں چلا ہوں جنگلوں سے کسی باغ آتشیں تک مرا زاد خار و خس ہے مرا رنگ اڑا ہوا ہے جو ہے بزم ہم سے خالی وہ رہے گی غم سے خالی جو جگہ خوشی سے پر ہے وہ ہمارا ہی خلا ہے ابھی دیکھئے گا ہر سو مرا خاک بوس ہونا کہ ہوائیں چل ...

    مزید پڑھیے

تمام