نہیں کچھ اور تو اپنے قریں پہنچ سکتے
نہیں کچھ اور تو اپنے قریں پہنچ سکتے
جہاں ہماری پہنچ ہے وہیں پہنچ سکتے
کرن سے تیز ہے رفتار بے خیالی کی
ہماری گرد کو تارے نہیں پہنچ سکتے
ہمیں کہیں نہ پہنچنے دیا تساہل نے
بدن نہ ہوتا تو شاید کہیں پہنچ سکتے
تناظرات پہ روتے زیادہ بولتے کم
ہماری چپ کو اگر نکتہ چیں پہنچ سکتے
عمق میں اتنی تو ہوتی اچھال کی قوت
کہ سطح تک بھی ترے تہ نشیں پہنچ سکتے
نہ خاک پھانکتے وہموں کی بند گلیوں میں
کبھی جو تم سر باب یقیں پہنچ سکتے
تلازمات سے ہو کر نہ جانا پڑتا ہمیں
ہم اپنی رمز کو اپنے تئیں پہنچ سکتے
نکل نہ پاتے اگر عکس آفرینی سے
تو اصل تک نہ شبیہ آفریں پہنچ سکتے
وہاں کے شہر عجائب میں گھومتے مل کر
نشیبی زینے سے زیر زمیں پہنچ سکتے
پہنچ میں ہوتی رسائی بھی نارسائی بھی
کہیں پہنچ نہیں سکتے کہیں پہنچ سکتے
تو پھر یہ ساری سیاحت فضول ہے شاہدؔ
اگر ہم اپنی فضا تک نہیں پہنچ سکتے