ذہانت نے نئی دنیا کی بوطیقا مرتب کی

ذہانت نے نئی دنیا کی بوطیقا مرتب کی
کہانی حاشیے پر جا چکی شاعر کے منصب کی


تری یہ گول دنیا تو کنواں ہے موت کا یا رب
میں چکرایا توازن میں تو پائی داد کرتب کی


نہ جانے آنکھ نے کیا دیکھ کر توسیع اسے دی ہے
وگرنہ خواب کی مدت تو پوری ہو چکی کب کی


صبا خوشبو کو آندھی گرد کو آگے بڑھاتی ہے
یہاں سب فکر پھیلاتے ہیں اپنے اپنے مکتب کی


ہماری کہکشاں کے وسط میں تاریک روزن ہے
اسی میں محو ہوتی جا رہی ہے روشنی سب کی


میں ان سے سرمئی صبحوں کی تمثیلیں نچوڑوں گا
لگی ہیں ہاتھ کچھ پرچھائیاں بھیگی ہوئی شب کی


فلک سے کام کے منظر کشید اک روز کر لوں گا
زمیں سے اخذ کر لوں گا فضائیں اپنے مطلب کی


ملیں گی دو تمنائیں تو حاصل کچھ نیا ہوگا
کہ اجزا سے الگ ہوتی ہے خاصیت مرکب کی


ہمارا ذوق نقاشی نہیں ہے آج کا پیارے
زباں تشکیل کے غاروں میں تھی یہ لہر ہے تب کی


کہیں ذرے کو اپنی موج میں اڑتا ہوا دیکھو
تو شاید تم سمجھ پاؤ حیات آزاد مشرب کی


نہیں معلوم کس شمسی فضا کے پاس سے گزرا
چمک بڑھنے لگی امکان کے دم دار کوکب کی


سیاہی پھیل کر دل سے جبیں تک آن پہنچی ہے
بدل دی ہیں مسلسل سرکشی نے صورتیں سب کی


گزر جوں ہی فراموشی کے دریا سے ہوا میرا
وہیں اپنی صراحی آب نسیاں سے لبالب کی