قباحت ایسی بھی کیا ہے نظر نہ آنے میں
قباحت ایسی بھی کیا ہے نظر نہ آنے میں
کہ دن گزار دیں لوگوں سے منہ چھپانے میں
کھڑے ہوئے تھے کہیں وقت کے کنارے پر
پھسل کے جا گرے اک اور ہی زمانے میں
تو اتنے فالتو ہو جاتے ہیں یہ خواب اک دن
کہ پھینک دیتے ہیں ان کو کباڑ خانے میں
یہ ایک عمر میں جانا یقینی کچھ بھی نہیں
بقایا عمر کٹی پھر یقیں دلانے میں
نکل نہ پاتے غموں کے غذائی جال سے ہم
جو خود کفیل نہ ہوتے فریب کھانے میں
مشین دیکھتی ہے سوچتی ہے بولتی ہے
ہمارا آپ کا اب کام کیا زمانے میں
دبی ہوئی تھی کہیں لا شعور میں شاہدؔ
لگا ہے وقت اداسی کو باہر آنے میں