یہ کائناتی ذہانت کا دور ہے بھائی
یہ کائناتی ذہانت کا دور ہے بھائی
یہاں خدا کا تصور کچھ اور ہے بھائی
سناؤ کیسے ہو کیسے ہیں چاند پر حالات
زمین پر تو وہی ظلم و جور ہے بھائی
کوئی پلک بھی جھپکتا نہیں تماشے میں
مداریوں کا طلسمانہ طور ہے بھائی
وطن کی صبح سے ہجرت کی رات دور نہیں
حرا سے چند قدم غار ثور ہے بھائی
تمہیں تو اذن سفر مل چکا مبارک ہو
ہمارا نام ابھی زیر غور ہے بھائی
جو کائنات کی چھت سے نظر کرو شاہدؔ
وہاں سے عالم حیرت ہی اور ہے بھائی