ایک تتلی کے پر مارنے سے ہواؤں کی لہروں میں طوفان پیدا ہوا

ایک تتلی کے پر مارنے سے ہواؤں کی لہروں میں طوفان پیدا ہوا
کیسے چھوٹے وقوعے سے کتنے بڑے اک وقوعے کا امکان پیدا ہوا


شر پسندی کا شعلہ دلوں تک جو پہنچا تو جل کر شبیہیں فنا ہو گئیں
نذر آتش ہوئیں آئنوں کی دکانیں تو حیرت کا بحران پیدا ہوا


اول اول یہ کردار مذکور تھا زندگی کی پرانی اساطیر میں
آخر آخر ذہانت کی پیوند کاری سے مصنوعی انسان پیدا ہوا


تجھ سے بچھڑا تو گزرا شرر کی طرح میں بھی پل بھر چمکنے کے احساس سے
اپنی موجودگی کا خیال اپنے معدوم ہونے کے دوران پیدا ہوا


دل میں غفلت کی لہروں کے ٹکراؤ سے تیری یادوں کی ترسیل رک جائے گی
یہ زمیں ڈوب جائے گی تاریکیوں میں اگر شمسی طوفان پیدا ہوا


ایک ہی روح فطرت کے اسرار میں کار فرما ہے اشیاء سے انفاس تک
جس کی صورت گری کو کہیں کوئی شاعر کہیں کیمیا دان پیدا ہوا