Shahid Mahuli

شاہد ماہلی

شاہد ماہلی کی نظم

    کہیں کچھ نہیں ہوتا

    کہیں کچھ نہیں ہوتا نہ آسمان ٹوٹتا ہے نہ زمیں بکھرتی ہے ہر چیز اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئی ہے ماہ و سال شب و روز برف کی طرح جم گئے ہیں اب کہیں اجنبی قدموں کی چاپ سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا نہ کہیں کسی جادوئی چراغ سے کوئی پریوں کا محل تعمیر ہوتا ہے نہ کہیں بارش ہوتی ہے نہ شہر جلتا ہے کہیں ...

    مزید پڑھیے

    کرفیو

    آج شب باہر نہ نکلو چل رہی ہیں ہر طرف خونی ہوائیں نفرتوں کے چھا گئے ہیں ابر ہر سو وحشتوں کا ہے اندھیرا کھڑکیوں کو بند کر دو ان پہ احساسات کے پردے چڑھا دو میز سے اخلاق کے کاغذ ہٹا دو پھاڑ دو انسانیت کی سب کتابیں علم کی شمعیں بجھا دو بند کر لو انگلیوں سے کان اپنے شاہراہیں چیختی ہیں ہر ...

    مزید پڑھیے

    عجیب لوگ

    عجیب لوگ ہیں صحرا میں شہر میں گھر میں سلگتی ریت پہ ٹھٹھرے ہوئے سمندر میں خلا میں چاند کی بنجر زمیں کے سینے پر جو صبح و شام کی بے ربط راہ میں چپ چاپ تعلقات کی تعمیر کرتے رہتے ہیں ہوا کے دوش پہ طوفان زلزلہ سیلاب دیا سلائی کی تیلی پہ ٹینک ایٹم بم کوئی جلوس کوئی پوسٹر کوئی تقریر امڈتی ...

    مزید پڑھیے

    ممبئی کی ایک رات

    چکا چوندھ حیرت زدہ روشنیوں کے اس شہر میں چند تاریک لمحوں کی خاطر بھٹکتا رہا ہوں کھلے بازوؤں ابھرے سینوں کھلی پنڈلیوں نیم عریاں لباسوں میں جکڑے ہوئے جسم کی خوشبوؤں سے میں گھبرا اٹھا ہوں چیختے پتھروں سنسناتی ہواؤں سمندر کی لہروں سے بھی ڈر گیا ہوں اک اونچی عمارت کے اک تنگ کمرے سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمحے کا خوف

    شب و روز کے مشغلوں سے پرے کوئی ایسا بھی لمحہ ہے جس کے تصور میں کتنے شب و روز بے چین گزرے دھڑکتی ہوئی نبض ڈوبی آتی جاتی ہوئی سانس راہوں میں رکنے لگی اندھیروں کے طوفان میں ایک کشتی بھی ساحل سے اوجھل ہوئی کوئی جگمگاتا ستارہ فلک کی بلندی سے گر کر کہیں کھو گیا سرد سارا بدن ہو گیا اور ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمحہ

    لمحہ دل کے بہت پاس سے گزرا ہوا صرف ایک لمحہ بہا لے گیا ہے جانے کتنے خوابوں خواہشوں اور منصوبوں کو بچا ہے ہڈیوں تک دھنسا ہوا سناٹا رکتی ہوئی سانسیں ڈوبتی ہوئی نبض اور سرد ہوا جسم پھر کوئی تیز ہوا کا جھونکا ڈھیر ساری گڈمڈ آوازیں چیخ ہنسی اور مسکراہٹ گھر دفتر بیوی بچے اور آئندہ بیس ...

    مزید پڑھیے

    عجیب بات

    عجیب بات ہوئی رات ایک لمحے میں ہزاروں صدیوں نے برسوں کا روپ دھار لیا ہر ایک سال مہینوں میں ہو گیا تبدیل ہر ایک ماہ دنوں میں دنوں سے گھنٹوں میں ہر ایک گھنٹے بھی لمحات میں بدلنے لگے عجیب بات ہوئی پھر کہ ایک لمحہ بھی ہزاروں ٹکڑوں میں بکھرا پھر ایک ٹکڑا جب میرے وجود سے ٹکرا کے پاش پاش ...

    مزید پڑھیے

    مستقبل کا ایک دن

    زمین اک دن فلک کے سینے میں کوئی خنجر اتار دے گی خلائیں چیخیں گی ٹوٹ کر جب گریں گے دھرتی پہ چاند تارے ادھر مسرت کا جشن ہوگا زمیں کے باسی بھریں گے اپنی ہوس کے دامن

    مزید پڑھیے

    وقفہ

    سرد راتوں کی گرمی جھلستے دنوں کی ہوا لے گئی ریگزاروں پہ بارود کی بو سے جھلسے ہوئے خشک پتے بکھرنے لگے چیختے آگ اگلتے گرجتے ہوئے زہر آلود لہجے اچانک بدلنے لگے پیلی آنکھوں سے تاریک چشمے اترنے لگے سارے اخبار کی سرخیاں گھٹ گئیں سہمی سہمی زمیں اپنی آغوش میں ٹوٹے پھوٹے گھروندے چھپائے ...

    مزید پڑھیے

    کانٹا

    کیا عجب ہے کہ کبھی دل کے سیہ خانے میں مسکرا اٹھے کوئی شوخ کرن یہ بلا خانۂ تاریک منور ہو جائے توڑ دے اپنی خموشی جو ضمیر غم کے تہہ خانوں کے اسرار کھلیں پھر نہ احساس چبھوئے نشتر پھر نہ رہ رہ کے جھنجھوڑے یہ ضمیر اور سینے پہ کوئی بوجھ بھی باقی نہ رہے ذہن سے فکر کا انبار ہٹے اک کڑے درد کا ...

    مزید پڑھیے