Shahid Mahuli

شاہد ماہلی

شاہد ماہلی کی غزل

    کچھ درد بڑھا ہے تو مداوا بھی ہوا ہے

    کچھ درد بڑھا ہے تو مداوا بھی ہوا ہے ہر سو دل بیتاب کا چرچا بھی ہوا ہے پرزے بھی اڑے ہیں مری وحشت کے سر راہ نظروں میں ہماری یہ تماشا بھی ہوا ہے پھوٹے ہیں کہیں آہ بھرے دل کے پھپھولے پامال کوئی شہر تمنا بھی ہوا ہے مانا کہ کڑی دھوپ میں سائے بھی ملے ہیں اس راہ میں ہر موڑ پر دھوکا بھی ...

    مزید پڑھیے

    کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا

    کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا آنکھوں میں بس گیا ہے وہ منظر کھلا ہوا بستر تھا ایک جسم تھے دو خواہشیں ہزار دونوں کے درمیان تھا خنجر کھلا ہوا الجھا ہی جا رہا ہوں میں گلیوں کے جال میں کب سے ہے انتظار میں اک گھر کھلا ہوا صحرا نورد شہر کی سڑکوں پہ آ گئے چہرے پہ گرد آبلہ پا سر کھلا ...

    مزید پڑھیے

    بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا

    بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا رکی ہے سوچ کہ اب اور آگے سوچے کیا ہر ایک راہ ہے سنسان ہر گلی خاموش یہ شہر شہر خموشاں ہے کوئی بولے کیا بجھی بجھی سی تمنا تھکی تھکی سی امید اب اور یاس کے صحرا میں کوئی چاہے کیا ہوئی ہے صبح سے کس طرح شام شام سے صبح جو میری جان پہ گزری ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں میں رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور

    سانسوں میں رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور ہے زیست کسی اور کی جیتا ہے کوئی اور آنکھوں نے بسائی ہے کوئی اور ہی صورت اس دل کے نہاں خانے میں ٹھہرا ہے کوئی اور کیا طرفہ تماشا ہے کہ اس دل کی صدا کو سنتا ہے کوئی اور سمجھتا ہے کوئی اور اک آگ ہے جو دل میں بجھی جاتی ہے ہر پل خرمن سے جو اٹھتا ...

    مزید پڑھیے

    ہر مرحلے سے یوں تو گزر جائے گی یہ شام

    ہر مرحلے سے یوں تو گزر جائے گی یہ شام لے کر بلائے درد کدھر جائے گی یہ شام پھیلیں گی چار سمت سنہری اداسیاں ٹکرا کے کوہ شب سے بکھر جائے گی یہ شام رگ رگ میں پھیل جائے گا تنہائیوں کا زہر چپکے سے میرے دل میں اتر جائے گی یہ شام ٹوٹا یقین زخمی امیدیں سیاہ خواب کیا لے کے آج سوئے سحر جائے ...

    مزید پڑھیے

    بام و در ٹوٹ گئے بہہ گیا پانی کتنا

    بام و در ٹوٹ گئے بہہ گیا پانی کتنا اور برباد کرے گی یہ جوانی کتنا رنگ کمھلا دیا بالوں میں پرو دی چاندی طول کھینچے گی ابھی اور کہانی کتنا یہ تلاطم یہ انا آبلہ پائی یہ جنوں ہم بھی دیکھیں گے کہ ہے جوش جوانی کتنا درمیاں آ گیا ابہام کا اک کوہ گراں ڈھونڈتے رہ گئے ہم دشت معانی ...

    مزید پڑھیے

    غم کی تہذیب اذیت کا قرینہ سیکھیں

    غم کی تہذیب اذیت کا قرینہ سیکھیں آؤ اس شہر میں جینا ہے تو جینا سیکھیں موت آنے کی صدا لمحہ بہ لمحہ چاہیں زیست کرنے کا ہنر زینہ بہ زینہ سیکھیں ہر نہیں ہاں سے بڑی ہے یہ حقیقت سمجھیں ہاں بہت سیکھ چکے اب تو کوئی نا سیکھیں جھانک کر آنکھوں میں سینے میں اتر کر دیکھیں نقشۂ دل سے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    رات ایسی کہ کبھی جس کا سویرا نہ ہوا

    رات ایسی کہ کبھی جس کا سویرا نہ ہوا درد ایسا کہ کوئی جس کا مسیحا نہ ہوا راز اک دل میں لیے پھرتے ہیں صحرا صحرا کوئی ہم راز تو ہو شہر میں ایسا نہ ہوا میرے احساس کی قسمت میں ہی محرومی تھی کبھی سوچا نہ ہوا اور کبھی چاہا نہ ہوا دل کے آئینے میں ہر عکس ہے دھندلا دھندلا لاکھ صورت ہے مگر ...

    مزید پڑھیے

    ہر در و دیوار پہ لرزاں کوئی پیکر لگے

    ہر در و دیوار پہ لرزاں کوئی پیکر لگے کتنی شکلوں کا پری خانہ ہمارا گھر لگے دوڑتی جائیں رگوں میں نیلگوں خاموشیاں دور تک پھیلا ہوا یوں دھند کا منظر لگے بند کمرے میں بلائے جاں ہے احساس سکوت اور باہر ہر طرف آواز کا پتھر لگے جیسے جیسے ٹوٹتا جائے نگاہوں کا بھرم شخصیت اپنی بھی اپنے ...

    مزید پڑھیے

    رگ رگ میں میری پھیل گیا ہے یہ کیسا زہر

    رگ رگ میں میری پھیل گیا ہے یہ کیسا زہر کیوں ڈوبنے لگا ہے دھندلکوں میں سارا شہر مجھ کو جھنجھوڑ دیتی ہیں لمحوں کی آہٹیں اٹھتی ہے میرے جسم میں اک بے بسی کی لہر یہ شب مرے وجود پہ یوں ٹوٹ پڑتی ہے جیسے کوئی بلا ہو کہ آسیب ہو کہ قہر پھوٹا نہ مدتوں سے کوئی چشمۂ امید سوکھی پڑی ہوئی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2