کانٹا
کیا عجب ہے کہ کبھی دل کے سیہ خانے میں
مسکرا اٹھے کوئی شوخ کرن
یہ بلا خانۂ تاریک منور ہو جائے
توڑ دے اپنی خموشی جو ضمیر
غم کے تہہ خانوں کے اسرار کھلیں
پھر نہ احساس چبھوئے نشتر
پھر نہ رہ رہ کے جھنجھوڑے یہ ضمیر
اور سینے پہ کوئی بوجھ بھی باقی نہ رہے
ذہن سے فکر کا انبار ہٹے
اک کڑے درد کا درماں ہو جائے
ہائے وہ درد جو الفاظ میں ڈھلتا ہی نہیں
ایک کانٹا جو کسی طرح نکلتا ہی نہیں