کرفیو
آج شب باہر نہ نکلو
چل رہی ہیں ہر طرف
خونی ہوائیں
نفرتوں کے چھا گئے ہیں ابر ہر سو
وحشتوں کا ہے اندھیرا
کھڑکیوں کو بند کر دو
ان پہ احساسات کے پردے
چڑھا دو
میز سے اخلاق کے کاغذ ہٹا دو
پھاڑ دو
انسانیت کی سب کتابیں
علم کی شمعیں بجھا دو
بند کر لو انگلیوں سے کان اپنے
شاہراہیں چیختی ہیں
ہر گلی کوچے سے آہیں آ رہی ہیں
پھر رہے ہیں ہر طرف
خونی درندے
اپنے کمرے کو خود اپنی قبر سمجھو
آج شب باہر نہ نکلو