ممبئی کی ایک رات

چکا چوندھ
حیرت زدہ
روشنیوں کے اس شہر میں
چند تاریک لمحوں کی خاطر
بھٹکتا رہا ہوں
کھلے بازوؤں ابھرے سینوں
کھلی پنڈلیوں
نیم عریاں لباسوں میں
جکڑے ہوئے جسم کی خوشبوؤں سے
میں گھبرا اٹھا ہوں
چیختے پتھروں
سنسناتی ہواؤں
سمندر کی لہروں سے بھی ڈر گیا ہوں
اک اونچی عمارت کے
اک تنگ کمرے سے اکتا کے
کاروں بسوں ٹیکسیوں سے بچتا ہوا
لال پیلی ہری بتیوں کے
اشاروں پہ چل کر
کتابوں کی دوکان پر آ گیا ہوں
کتابیں رسالے تصاویر
بے معنی بحثیں
ہنسی قہقہے شاعری
چائے سگریٹ باقرؔ نداؔ
مے کدہ
ملگجی رات
فٹ پاتھ
ہر اجنبی سے میں اپنا پتہ پوچھتا ہوں