ایک لمحے کا خوف

شب و روز کے مشغلوں سے پرے
کوئی ایسا بھی لمحہ ہے
جس کے تصور میں
کتنے شب و روز
بے چین گزرے
دھڑکتی ہوئی نبض ڈوبی
آتی جاتی ہوئی سانس
راہوں میں رکنے لگی
اندھیروں کے طوفان میں
ایک کشتی بھی
ساحل سے اوجھل ہوئی
کوئی جگمگاتا ستارہ
فلک کی بلندی سے گر کر
کہیں کھو گیا
سرد سارا بدن ہو گیا
اور پھر
جیسے تاریک گوشے میں
کوئی کرن مسکرائی
کوئی آرزو ہنس پڑی
گرمئ حسرت دل بھی
ٹھٹھرے ہوئے جسم میں
تازگی بھر گئی
چل پڑی
پھر شب و روز کے مشغلوں سے لدی
زنگ آلود گاڑی