Shahid Mahuli

شاہد ماہلی

شاہد ماہلی کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    کچھ درد بڑھا ہے تو مداوا بھی ہوا ہے

    کچھ درد بڑھا ہے تو مداوا بھی ہوا ہے ہر سو دل بیتاب کا چرچا بھی ہوا ہے پرزے بھی اڑے ہیں مری وحشت کے سر راہ نظروں میں ہماری یہ تماشا بھی ہوا ہے پھوٹے ہیں کہیں آہ بھرے دل کے پھپھولے پامال کوئی شہر تمنا بھی ہوا ہے مانا کہ کڑی دھوپ میں سائے بھی ملے ہیں اس راہ میں ہر موڑ پر دھوکا بھی ...

    مزید پڑھیے

    کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا

    کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا آنکھوں میں بس گیا ہے وہ منظر کھلا ہوا بستر تھا ایک جسم تھے دو خواہشیں ہزار دونوں کے درمیان تھا خنجر کھلا ہوا الجھا ہی جا رہا ہوں میں گلیوں کے جال میں کب سے ہے انتظار میں اک گھر کھلا ہوا صحرا نورد شہر کی سڑکوں پہ آ گئے چہرے پہ گرد آبلہ پا سر کھلا ...

    مزید پڑھیے

    بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا

    بھٹک رہی ہے اندھیروں میں آنکھ دیکھے کیا رکی ہے سوچ کہ اب اور آگے سوچے کیا ہر ایک راہ ہے سنسان ہر گلی خاموش یہ شہر شہر خموشاں ہے کوئی بولے کیا بجھی بجھی سی تمنا تھکی تھکی سی امید اب اور یاس کے صحرا میں کوئی چاہے کیا ہوئی ہے صبح سے کس طرح شام شام سے صبح جو میری جان پہ گزری ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں میں رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور

    سانسوں میں رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور ہے زیست کسی اور کی جیتا ہے کوئی اور آنکھوں نے بسائی ہے کوئی اور ہی صورت اس دل کے نہاں خانے میں ٹھہرا ہے کوئی اور کیا طرفہ تماشا ہے کہ اس دل کی صدا کو سنتا ہے کوئی اور سمجھتا ہے کوئی اور اک آگ ہے جو دل میں بجھی جاتی ہے ہر پل خرمن سے جو اٹھتا ...

    مزید پڑھیے

    ہر مرحلے سے یوں تو گزر جائے گی یہ شام

    ہر مرحلے سے یوں تو گزر جائے گی یہ شام لے کر بلائے درد کدھر جائے گی یہ شام پھیلیں گی چار سمت سنہری اداسیاں ٹکرا کے کوہ شب سے بکھر جائے گی یہ شام رگ رگ میں پھیل جائے گا تنہائیوں کا زہر چپکے سے میرے دل میں اتر جائے گی یہ شام ٹوٹا یقین زخمی امیدیں سیاہ خواب کیا لے کے آج سوئے سحر جائے ...

    مزید پڑھیے

تمام

10 نظم (Nazm)

    کہیں کچھ نہیں ہوتا

    کہیں کچھ نہیں ہوتا نہ آسمان ٹوٹتا ہے نہ زمیں بکھرتی ہے ہر چیز اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئی ہے ماہ و سال شب و روز برف کی طرح جم گئے ہیں اب کہیں اجنبی قدموں کی چاپ سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا نہ کہیں کسی جادوئی چراغ سے کوئی پریوں کا محل تعمیر ہوتا ہے نہ کہیں بارش ہوتی ہے نہ شہر جلتا ہے کہیں ...

    مزید پڑھیے

    کرفیو

    آج شب باہر نہ نکلو چل رہی ہیں ہر طرف خونی ہوائیں نفرتوں کے چھا گئے ہیں ابر ہر سو وحشتوں کا ہے اندھیرا کھڑکیوں کو بند کر دو ان پہ احساسات کے پردے چڑھا دو میز سے اخلاق کے کاغذ ہٹا دو پھاڑ دو انسانیت کی سب کتابیں علم کی شمعیں بجھا دو بند کر لو انگلیوں سے کان اپنے شاہراہیں چیختی ہیں ہر ...

    مزید پڑھیے

    عجیب لوگ

    عجیب لوگ ہیں صحرا میں شہر میں گھر میں سلگتی ریت پہ ٹھٹھرے ہوئے سمندر میں خلا میں چاند کی بنجر زمیں کے سینے پر جو صبح و شام کی بے ربط راہ میں چپ چاپ تعلقات کی تعمیر کرتے رہتے ہیں ہوا کے دوش پہ طوفان زلزلہ سیلاب دیا سلائی کی تیلی پہ ٹینک ایٹم بم کوئی جلوس کوئی پوسٹر کوئی تقریر امڈتی ...

    مزید پڑھیے

    ممبئی کی ایک رات

    چکا چوندھ حیرت زدہ روشنیوں کے اس شہر میں چند تاریک لمحوں کی خاطر بھٹکتا رہا ہوں کھلے بازوؤں ابھرے سینوں کھلی پنڈلیوں نیم عریاں لباسوں میں جکڑے ہوئے جسم کی خوشبوؤں سے میں گھبرا اٹھا ہوں چیختے پتھروں سنسناتی ہواؤں سمندر کی لہروں سے بھی ڈر گیا ہوں اک اونچی عمارت کے اک تنگ کمرے سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمحے کا خوف

    شب و روز کے مشغلوں سے پرے کوئی ایسا بھی لمحہ ہے جس کے تصور میں کتنے شب و روز بے چین گزرے دھڑکتی ہوئی نبض ڈوبی آتی جاتی ہوئی سانس راہوں میں رکنے لگی اندھیروں کے طوفان میں ایک کشتی بھی ساحل سے اوجھل ہوئی کوئی جگمگاتا ستارہ فلک کی بلندی سے گر کر کہیں کھو گیا سرد سارا بدن ہو گیا اور ...

    مزید پڑھیے

تمام