کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا
کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا
آنکھوں میں بس گیا ہے وہ منظر کھلا ہوا
بستر تھا ایک جسم تھے دو خواہشیں ہزار
دونوں کے درمیان تھا خنجر کھلا ہوا
الجھا ہی جا رہا ہوں میں گلیوں کے جال میں
کب سے ہے انتظار میں اک گھر کھلا ہوا
صحرا نورد شہر کی سڑکوں پہ آ گئے
چہرے پہ گرد آبلہ پا سر کھلا ہوا