کچھ درد بڑھا ہے تو مداوا بھی ہوا ہے
کچھ درد بڑھا ہے تو مداوا بھی ہوا ہے
ہر سو دل بیتاب کا چرچا بھی ہوا ہے
پرزے بھی اڑے ہیں مری وحشت کے سر راہ
نظروں میں ہماری یہ تماشا بھی ہوا ہے
پھوٹے ہیں کہیں آہ بھرے دل کے پھپھولے
پامال کوئی شہر تمنا بھی ہوا ہے
مانا کہ کڑی دھوپ میں سائے بھی ملے ہیں
اس راہ میں ہر موڑ پر دھوکا بھی ہوا ہے
روشن تو ہے یخ بستہ فضاؤں میں کوئی آگ
تاریکیٔ زنداں میں اجالا بھی ہوا ہے
ہر لمحہ کوئی حادثہ روکے ہے مرے پاؤں
ہر پل کسی خواہش کا تقاضا بھی ہوا ہے
کس موڑ پہ آ پہنچا ہے شاہدؔ یہ زمانہ
رفتار قیامت کی ہے ٹھہرا بھی ہوا ہے