سانسوں میں رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور
سانسوں میں رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور
ہے زیست کسی اور کی جیتا ہے کوئی اور
آنکھوں نے بسائی ہے کوئی اور ہی صورت
اس دل کے نہاں خانے میں ٹھہرا ہے کوئی اور
کیا طرفہ تماشا ہے کہ اس دل کی صدا کو
سنتا ہے کوئی اور سمجھتا ہے کوئی اور
اک آگ ہے جو دل میں بجھی جاتی ہے ہر پل
خرمن سے جو اٹھتا ہے وہ شعلہ ہے کوئی اور
لاشے ہیں کنارے پہ پڑے تشنہ لبوں کے
جو پیاس بجھاتا ہے وہ دریا ہے کوئی اور
ہر صبح پہ سایہ سا ہے کچھ تلخئ شب کا
ہر شام کو اندیشۂ فردا ہے کوئی اور
اک بوئے رفاقت سی فضاؤں میں ہے شاہدؔ
اس کوچۂ بیگانہ سے گزرا ہے کوئی اور