Shaghil Adeeb

شاغل ادیب

  • 1934

شاغل ادیب کی غزل

    جینا اگر جہاں میں ہے ایسا کرے کوئی

    جینا اگر جہاں میں ہے ایسا کرے کوئی غم دن میں کھائے رات کو رویا کرے کوئی بستی میں جانتے ہیں سبھی ہم کو ہم ہیں کیا بستی میں آج کیوں ہمیں رسوا کرے کوئی فرصت ہے کس کو شہر میں جو سوچتا رہے کوئی کرے برائی کہ اچھا کرے کوئی بے وقت کی صلیب پہ لٹکے ہوئے ہیں آج کس منہ سے دوست تیری تمنا کرے ...

    مزید پڑھیے

    حسیں وہ چہرہ ہے مہتاب کا جواب کوئی

    حسیں وہ چہرہ ہے مہتاب کا جواب کوئی کہ میرے آگے ہے اک نور کی کتاب کوئی تمام عمر اسے حاجت سرور نہیں تمہاری آنکھ سے پی لے اگر شراب کوئی وجود پاتا ہوں خوشبو کا آج اپنے گرد کھلا ہے ان کی نوازش کا پھر گلاب کوئی نہ لے سکا کوئی جب چٹکیوں میں ذروں کو چلا ہے آج پکڑنے کو آفتاب کوئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    عزم منزل رسی کی بات کریں

    عزم منزل رسی کی بات کریں دوستو زندگی کی بات کریں عظمت آدمی کی بات کریں شان اسکندری کی بات کریں دین و دنیا کی کفر و ایماں کی آج آؤ سبھی کی بات کریں رنج و غم تو ہیں روز کے عنواں آج حظ و خوشی کی بات کریں آج گیسوئے وقت سلجھائیں پھر کبھی عاشقی کی بات کریں

    مزید پڑھیے

    عجب ہے پیار کے بدلے کا اب چلن یارو

    عجب ہے پیار کے بدلے کا اب چلن یارو ہے زخم زخم سے چھلنی مرا بدن یارو دریدہ پیرہنی اپنی ہے بہت ہم کو بہار لے لو تمہیں لے لو اب چمن یارو تمہارے لب پہ کھلا خندہ سب نے دیکھا ہے مگر ہمیں نے ہے دیکھا تمہارا من یارو پرائے دیس کی بیگانگی کو کیا روئیں تھے ہم تو اپنے وطن میں بھی بے وطن ...

    مزید پڑھیے

    جسم خالی ہے جان ہے خالی

    جسم خالی ہے جان ہے خالی زندگی کا مکان ہے خالی تارے امید کے نہیں کوئی آس کا آسمان ہے خالی پیاس ناکام لوٹ آئی ہے مے کی اک اک دکان ہے خالی دل پڑا رو رہا ہے کھائی میں عشرتوں کی چٹان ہے خالی بولتا میں بھی ہوں کہا کس نے میری اپنی زبان ہے خالی کون دے گا دلاسا اے شاغلؔ پیار تنہا جہان ...

    مزید پڑھیے

    سورج اب غم کا چھپا ہے شاید

    سورج اب غم کا چھپا ہے شاید چاند خوشیوں کا اگا ہے شاید زندگی اوڑھ چکی تاریکی دل کوئی ڈوب رہا ہے شاید آنکھ اس کی بھی نظر آتی ہے نم کانٹا اس کے بھی چبھا ہے شاید راہی افسوس ہراساں ہیں سب قافلہ چھوٹ گیا ہے شاید نوحہ ہر لب پہ ہر اک جا گریہ کوئی دنیا سے اٹھا ہے شاید اس سے شاغلؔ ہیں ...

    مزید پڑھیے

    وقار درد و غم زندگی نہیں معلوم

    وقار درد و غم زندگی نہیں معلوم نہیں ہے آدمی کیوں آدمی نہیں معلوم سلوک دوست کا شکوہ نہیں مگر کب تک ہمیں ڈبوئے گی یہ سادگی نہیں معلوم تمام عمر رہے حادثہ شکار مگر رہی کیوں یاد تری چوٹ ہی نہیں معلوم غضب کہ پیار کی راہوں میں آج چل نکلے وہ جن کو نام وفا بھی ابھی نہیں معلوم چمن کھلا ...

    مزید پڑھیے

    شمع وفا بجھی ہے نہ دل ہے بجھا ہوا

    شمع وفا بجھی ہے نہ دل ہے بجھا ہوا تاریک کیسے پیار کا ہر راستہ ہوا روشن ہے داغ داغ تمنا کا آج بھی لیکن نگاہ گردش دوراں کو کیا ہوا اک ہم کہ آشنا رہے ہر اک سے پیار میں اک وہ کہ ہو کے آشنا نا آشنا ہوا دل کے جلے دیار پہ آنسو بہائے کون سب دیکھتے ہیں یہ کہ ہے چہرہ کھلا ہوا شاغلؔ ادیبؔ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2