وقار درد و غم زندگی نہیں معلوم

وقار درد و غم زندگی نہیں معلوم
نہیں ہے آدمی کیوں آدمی نہیں معلوم


سلوک دوست کا شکوہ نہیں مگر کب تک
ہمیں ڈبوئے گی یہ سادگی نہیں معلوم


تمام عمر رہے حادثہ شکار مگر
رہی کیوں یاد تری چوٹ ہی نہیں معلوم


غضب کہ پیار کی راہوں میں آج چل نکلے
وہ جن کو نام وفا بھی ابھی نہیں معلوم


چمن کھلا تو چکے ہم جراحت دل کا
کلی کھلے گی کب اک آس کی نہیں معلوم


سکون دل نہ قرار حیات ہے ہم کو
ہو ختم کب یہ نوازش تری نہیں معلوم


ہمارے پیار کو شاغلؔ نہ مل سکے گا پیار
ہمیں کہے گا بھی اپنا کوئی نہیں معلوم