جینا اگر جہاں میں ہے ایسا کرے کوئی
جینا اگر جہاں میں ہے ایسا کرے کوئی
غم دن میں کھائے رات کو رویا کرے کوئی
بستی میں جانتے ہیں سبھی ہم کو ہم ہیں کیا
بستی میں آج کیوں ہمیں رسوا کرے کوئی
فرصت ہے کس کو شہر میں جو سوچتا رہے
کوئی کرے برائی کہ اچھا کرے کوئی
بے وقت کی صلیب پہ لٹکے ہوئے ہیں آج
کس منہ سے دوست تیری تمنا کرے کوئی
اس راہ میں شجر کی کوئی چھاؤں بھی نہیں
کب تک سفر کی دھوپ میں بھٹکا کرے کوئی
شاغلؔ ادیبؔ اپنی روش ہی چلیں گے ہم
بدلیں گے ہم ذرا نہیں بدلا کرے کوئی