Shaghil Adeeb

شاغل ادیب

  • 1934

شاغل ادیب کی غزل

    غافل نہ رہنا نبض کی رفتار دیکھنا

    غافل نہ رہنا نبض کی رفتار دیکھنا سر پر لٹکتی وقت کی تلوار دیکھنا خالی ہیں دونوں ہاتھ ضرورت پہ ہے نظر دم توڑتے ہیں آج کے فن کار دیکھنا سب کھا رہے ہیں بیچ کے گہنے ضمیر کے ہیں لوگ کتنے آج کے نادار دیکھنا داڑھی بڑھی ہیں بال بڑھے کپڑے گیروے ہیں یہ جدید دور کے اوتار دیکھنا ہے سمت ...

    مزید پڑھیے

    چراغ درد جلاؤ کہ روشنی کم ہے

    چراغ درد جلاؤ کہ روشنی کم ہے جنوں کی بزم سجاؤ کہ روشنی کم ہے نہ چھیڑو ذکر تعفن بھرے زمانے کا گلاب زخم کھلاؤ کہ روشنی کم ہے نہ جانے چھپ گئی منزل کہاں اندھیروں میں مرے قریب تر آؤ کہ روشنی کم ہے تمہارے شہر کی شاید ہے صبح شب پرور یہ کیا ہے ورنہ بتاؤ کہ روشنی کم ہے نہ بزم فکر ہے روشن ...

    مزید پڑھیے

    اٹھا ہی لیتے ہیں دیوار و در سلیقے سے

    اٹھا ہی لیتے ہیں دیوار و در سلیقے سے بنانے والے بناتے ہیں گھر سلیقے سے نظر میں رکھتے ہیں وہ زندگی شہادت کی کٹانے والے کٹاتے ہیں سر سلیقے سے سلیقہ مند ہے کتنی یہ گردش دوراں کہ آج اگتے ہیں شام و سحر سلیقے سے سنا ہے اشک ندامت کی ہے بڑی قیمت سجا لے پلکوں پہ تو یہ گہر سلیقے ...

    مزید پڑھیے

    مشعل درد کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

    مشعل درد کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے آج ہر زخم کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے پھر چلے ان کی حدیث لب و رخسار چلو دار پر ہم کو چڑھا آؤ کہ کچھ رات کٹے وہ تو سب بھر گئے اب تک جو ملے تھے یارو اب کوئی زخم نیا کھاؤ کہ کچھ رات کٹے تلخی زیست کے سناٹے سے ڈر لگتا ہے پھر غم یار کو بلواؤ کہ کچھ رات ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو جہاں کی عشرت و راحت سے کیا غرض

    ہم کو جہاں کی عشرت و راحت سے کیا غرض دنیائے بے ثبات کی دولت سے کیا غرض گمنام رہنا اپنے مقدر میں ہے لکھا ہم کو کسی کے گوہر شہرت سے کیا غرض ماضی کا تلخ جام ہے اپنے نصیب میں ہم کو شراب حال کی لذت سے کیا غرض الزام سے بچے نہ پیمبر بھی ہے خبر یاران جہل کی ہمیں تہمت سے کیا غرض دیکھے نہ ...

    مزید پڑھیے

    عکس رنج و ملال ہیں ہم لوگ

    عکس رنج و ملال ہیں ہم لوگ زندگی کا مآل ہیں ہم لوگ گاہ سادہ فسانہ ہیں ہمدم گاہ رنگیں خیال ہیں ہم لوگ ساز ماضی رباب فردا کبھی اور کبھی چنگ حال ہیں ہم لوگ جس کا اب تک جواب بن نہ پڑا ایک ایسا سوال ہیں ہم لوگ دکھ جھپٹتے ہیں ہم پہ یوں جیسے اک غنیمت کا مال ہیں ہم لوگ پیتے ہیں زہر اشک ...

    مزید پڑھیے

    درد و غم کا بیاں نہیں معلوم

    درد و غم کا بیاں نہیں معلوم پیار کی داستاں نہیں معلوم راہ میں ہم اکیلے بیٹھے ہیں کب گیا کارواں نہیں معلوم حشر ساماں ہیں آج کے حالات ہوں گے کل ہم کہاں نہیں معلوم احتراماً ہیں لوگ جور پہ چپ کب کھلے گی زباں نہیں معلوم دل زمانے سے ہم لگا بیٹھے اس کا سود و زیاں نہیں معلوم ہے دھواں ...

    مزید پڑھیے

    راہزن راہوں میں اپنے جال پھیلاتے رہے

    راہزن راہوں میں اپنے جال پھیلاتے رہے ہم مگر اپنی ہی دھن میں جھومتے گاتے رہے دور جتنی دور تک تھیں رات کی تاریکیاں دور اتنی دور ہم راہوں کو چمکاتے رہے منحصر ہے اپنے اپنے عزم پر منزل رسی قافلے یوں تو بہت آتے رہے جاتے رہے ہر تسلی دشمن آرام جاں بنتی گئی آپ کے خط اور دل کے زخم گہراتے ...

    مزید پڑھیے

    کس نے کہا منت کش مے خانہ ہوا ہوں

    کس نے کہا منت کش مے خانہ ہوا ہوں اپنا ہی لہو پیتا ہوں دیوانہ ہوا ہوں ہر رات طلسمات کے قصوں کا ہوں کردار ہر روز الف لیلوی افسانہ ہوا ہوں اپنوں کے دلوں میں ہوں ہوں اوروں کی زباں پر دنیا کے لئے میں کہاں بیگانہ ہوا ہوں ٹھہرا ہوں گدا اک نگہہ وقت میں لیکن اپنے لئے تو عظمت شاہانہ ہوا ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی اک واردات باقی ہے

    اب بھی اک واردات باقی ہے دن ہوا قتل رات باقی ہے ہو گئی دفن آس کی دلہن درد و غم کی برات باقی ہے کیا ہوا ساتھ آپ نے چھوڑا غم زدہ دل کا سات باقی ہے زندگی گو نہیں ہے شہروں میں جنگلوں میں حیات باقی ہے بات تو ہو چکی تھی ختم مگر جانے کیوں پھر بھی بات باقی ہے رنج سہنے کے واسطے شاغلؔ اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2