Shabnam Ashai

شبنم عشائی

شبنم عشائی کی نظم

    نظم

    مجھے فرار بھری جوتیوں نے پہن لیا اور ایک سفر ایجاد کیا میرے ساتھ میری خاموشی ہے اک بے سوادی ہے باقی سب خواب عشق وفا نیندیں سب کچھ جاگیر داری کے کونے کھدروں میں پڑے ہوئے ہیں خاموشی کے دامن سے وفا کا دامن بڑا ہوتا ہے پیروں کے چھالے پڑنے پر وفا کی طلب بڑھتی ہے میں مور کی مانند اپنے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    تحفہ میں ملی پینٹنگ میں چاروں موسم سنہری رنگ سے کھینچے گئے ہیں اور یوں ہی ملی زندگی میں صرف ایک موسم آنسوؤں کے رنگ سے کھینچا گیا ہے دونوں قید ہیں ایک کمرے میں پینٹنگ سالم ہے اور زندگی سے پوچھتی ہے تیرے باقی موسم کہاں ہیں زندگی پینٹنگ سے کہتی ہے سنو مجھے سوچو نہیں الجھ جاؤ گی میں ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں جسم پہ ٹیلکم نہیں اپنے وجود پہ نمک چھڑکنا چاہتی ہوں صدیوں سے جمی ہوئی برف کاٹنا چاہتی ہوں کیا تم رشتوں کا الاؤ دہکا سکتے ہو میں اپنی آنکھوں کو آنسوؤں سے طلاق دلانا چاہتی ہوں جو صدیوں سے آنسو کاشت کر رہی ہیں کیا تم میری آنکھوں کو خواب دے سکتے ہو زمانے کے بکھیڑوں میں نہیں من کی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    پڑھ بھی رہے ہو یا یوں ہی میں اپنے ورق پلٹ رہی ہوں کسی بھی اور صورت میں میں تمہیں سالم نہیں ملوں گی آخری بار تمہاری ہاتھ کی لکیریں مجھے چھو رہی ہیں پہلی بار کسی خواہش نے مجھے سہلایا ہے کہ میں تمہارے من میں مجلد ہوں آخری یا پہلے پنے کے بدن سے کوئی لفظ پھیل بھی سکتا ہے مجھے میری من کی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    ڈھیر ساری ریت کے نیچے دبی ایک روح دیر گئے ریت ہٹانے کی کوشش میں اپنے ناخن توڑ بیٹھی یوں تو کچھ توڑنا بھی اچھا لگتا ہے جو ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے قتل ہو جاتا ہے ویسے قتل ہونا ہی جینے کا سچ ہے اور اس لمحے کا سچ یہی ہے کہ صدیوں بعد ایسا واقعہ ہوا تھا کہ ریت کے ذرے اس کی آنکھوں میں چبھ جانے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں بچپن میں دو قلم ایک ساتھ مانگتی تھی میرے دادا خوش ہو جاتے اور میری ماں بھی مسکراتی پاپا، نانا بننے سے پہلے بچوں کے کھیل میں دلچسپی نہیں لیتے میں دو دو ہاتھوں سے لکیریں کھینچتی ایک دن میرے ہاتھوں عورت بن گئی جس کے ہاتھ پیر ہی نہیں دل اور دماغ بھی دکھ رہے تھے پھر اس کی تہذیب ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    تم نے مجھے اتنی بار مٹا دیا ہے کہ اب میں بنا کسی چہرے کے جی سکتی ہوں لیکن کوئی مجسمہ نہیں بن سکتی اگر ایک بار بھی تم مجھے پڑھنے کے بعد مٹاتے میں دکھ تراشنے کی مشق نہیں دہراتی تم دوسروں کو دکھ دینے کی سرشاری میں جی سکتے ہو میں بہت سارے دکھ تراش کر کوئی مجسمہ بنا سکتی ہوں ایک بار ایک ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میری لکنت اس قلم کی زبان ہے جس کو تمہاری انا نے تراشا اور یہ جو گونج ہے میرے وجود کے ٹوٹنے کی آواز ہے کوئی فیمینزم نہیں بس بے حیثیتی ہے

    مزید پڑھیے

    نظم

    زندگی کی سگریٹ تمہارے ساتھ پینے کی خاطر میں نے اپنے سوچنے کی صلاحیت تمہارے نام کر دی تھی اور وہ تمام مکھوٹے تمہارے کمرے میں سجا دئے تھے جنہیں تم نے عمر بھر شکار کیا تھا میں اپنی ساری خوشبوئیں خرچ کر کے تمہارا پورا درد خرید رہی تھی لیکن تم نے آنکھوں پر ہی نہیں دماغ پر بھی پٹی ...

    مزید پڑھیے

    جب تم نے مجھے

    اپنے احاطے سے کھدیڑا تھا میرے ساتھ خدا بھی بے گھر ہو گیا تھا تم میری آنکھوں سے درماندہ خواب ہٹا سکتے تھے یا پھر میرے من کے آنسو پونچھ سکتے تھے میں یوں کشکول لیے اس شہر میں اپنائیتیں نہ مانگتی جہاں بھگوان بھی بھیک میں پیسے مانگتا ہے سڑکوں پے

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4