نظم
اس کو
تاریخ سے آزادی دی گئی تھی
وہ اتنا چلی
کہ اس کا
کوئی بھی ناخن نہیں بچا
بنا ناخن کی انگلیاں
بھدی ہی نہیں بیکار ہو جاتی ہیں
پھر وہ بہنے لگی
اور بہتی رہی
اپنی اننت دھارا میں
تاریخ بہاؤ کی خوبصورتی کیا سمجھتی
باندھ باندھے
بنا یہ سوچے
کہ سڑاندھ پیدا ہو جانے پر
دم گھٹ سکتا ہے
تاریخ کی
موت واقع ہو سکتی ہے