صولت زیدی کی غزل

    خیال گردش شام و سحر میں رہتا ہوں

    خیال گردش شام و سحر میں رہتا ہوں میں گھر میں رہتے ہوئے بھی سفر میں رہتا ہوں میں اپنے جسم پہ تنقید کر نہیں سکتا مگر یہ سچ ہے کہ مٹی کے گھر میں رہتا ہوں مجھے قیام کہاں اب مجھے تلاش نہ کر ہے میرا نام مسافر سفر میں رہتا ہوں میں ایک درد سہی پھر بھی مٹ نہیں سکتا سبب یہ ہے کہ دل چارہ گر ...

    مزید پڑھیے

    کانٹوں تمہیں پھولوں کی چبھن یاد رہے گی

    کانٹوں تمہیں پھولوں کی چبھن یاد رہے گی بھولو گے کہ روداد چمن یاد رہے گی کیا بھولنے دے گی وہ مجھے رات کی رانی وہ زلف وہ خوشبوئے بدن یاد رہے گی یہ زخم دل زار تو بھر جائے گا اک دن لیکن ترے ماتھے کی شکن یاد رہے گی تھا سایہ فگن جس پہ کوئی فتح کا پرچم وہ لاش بھی بے گور و کفن یاد رہے ...

    مزید پڑھیے

    اک بات بہت خاص تھی چہروں کے سفر میں

    اک بات بہت خاص تھی چہروں کے سفر میں ٹوٹے ہوئے آئنے ملے راہ گزر میں رہتا ہوں اجالوں کے اندھیروں کے سفر میں یہ کس نے مجھے بانٹ دیا شام و سحر میں دیوانگئ شوق کی عظمت ہے نظر میں صحراؤں کی تصویر لگا رکھی ہے گھر میں جب تک کہ نہ آ جاؤں میں ساحل کی نظر میں رہنے دے مجھے گردش تقدیر بھنور ...

    مزید پڑھیے

    رہ کے خاموش بھی اعلان بہت کرتا ہے

    رہ کے خاموش بھی اعلان بہت کرتا ہے آئنہ چہروں کا نقصان بہت کرتا ہے آؤ صحرا میں یہ دیوانے سے چل کر پوچھیں پھول کیوں چاک گریبان بہت کرتا ہے روشنی لکھ نہیں سکتا کسی قسمت میں چراغ رات آتی ہے تو احسان بہت کرتا ہے آؤ اب عقل کی میزان پہ تولیں اس کو وہ وفاداری کا اعلان بہت کرتا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ بے موسم جو پروائی بہت ہے

    یہ بے موسم جو پروائی بہت ہے سرور درد تنہائی بہت ہے شریک غم نہ ہو کوئی تو اچھا اکیلی ہو تو تنہائی بہت ہے عبث شکوہ کی بوندیں ڈھونڈھتے ہو مرے ہونٹوں کی گہرائی بہت ہے تو کیا میں دشمنوں میں آ گیا ہوں یہاں تو شور پسپائی بہت ہے وہ چلتا ہے ہمیشہ بھیڑ لے کر اسے احساس تنہائی بہت ...

    مزید پڑھیے

    حائل ہیں اشک راہ میں کیسے نظر ملے

    حائل ہیں اشک راہ میں کیسے نظر ملے بارش اگر تھمے تو مسافر کو گھر ملے آئے چراغ شام لگا لوں گلے تجھے دونوں کو یہ امید نہیں ہے سحر ملے دور جدید میں جو بڑھی فاصلوں کی بات جی چاہتا نہیں کہ نظر سے نظر ملے اب تو جنوں کے ہاتھ سے پتھر نکل گئے اب ہم بھی چاہتے ہیں کہ شیشہ کا گھر ملے صولتؔ ...

    مزید پڑھیے

    ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک

    ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک پھول بھی پھول نہ تھا خون میں تر ہونے تک وہی حق دار ہے سورج کی کرن کا جس نے رات کی زلف سنواری ہے سحر ہونے تک تارے دیوانے نہیں ہیں کہ جو تھامے ہی رہیں دامن شب کو گریبان سحر ہونے تک پوچھئے خضر سے کیا وہ بھی رہیں گے زندہ اپنی باتوں کا حبابوں پہ اثر ...

    مزید پڑھیے

    جس رات بھی چراغ شب غم رہا ہوں میں

    جس رات بھی چراغ شب غم رہا ہوں میں اس رات روشنی میں بہت کم رہا ہوں میں غیروں سے دوستی کو بڑھایا ہے اپنا ہاتھ خود کتنا اپنے آپ سے برہم رہا ہوں میں خوشبو دل و دماغ میں اور وہ بھی اس قدر پھولوں کا ہم نشیں تو بہت کم رہا ہوں میں یہ شہر جسم و جاں مری پہچان بن گیا اس شہر میں اگرچہ بہت کم ...

    مزید پڑھیے

    رنگ کا فرق مٹایا یہ شرف میرا تھا

    رنگ کا فرق مٹایا یہ شرف میرا تھا سنگ اسود تھا مرا در نجف میرا تھا صبح بیعت کی وہ زہریلی ہوا تیری تھی اور جو پھول تھا شمشیر بکف میرا تھا رہ کے پانی میں بھی پانی سے بہت دور رہا تھا جو دریا میں وفاؤں کا صدف میرا تھا دین و دنیا میں رہی جنگ اندھیرے کے سبب صبح کے وقت مگر میری طرف میرا ...

    مزید پڑھیے

    مزاج دل نہ اتنا سرد ہوتا

    مزاج دل نہ اتنا سرد ہوتا اگر پہلو بہ پہلو درد ہوتا یہ کچلی لاش اب بھی سوچتی ہے کوئی اس بھیڑ میں ہمدرد ہوتا خزاں والے یہی تو چاہتے ہیں ہرے پتوں کا چہرہ زرد ہوتا محبت پر ہے پروائی کا احساں وگرنہ دل میں کیوں یہ درد ہوتا زمانے کی نظر لگنے نہ دیتا جو تو آئینہ اور میں گرد ہوتا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2