یہ بے موسم جو پروائی بہت ہے

یہ بے موسم جو پروائی بہت ہے
سرور درد تنہائی بہت ہے


شریک غم نہ ہو کوئی تو اچھا
اکیلی ہو تو تنہائی بہت ہے


عبث شکوہ کی بوندیں ڈھونڈھتے ہو
مرے ہونٹوں کی گہرائی بہت ہے


تو کیا میں دشمنوں میں آ گیا ہوں
یہاں تو شور پسپائی بہت ہے


وہ چلتا ہے ہمیشہ بھیڑ لے کر
اسے احساس تنہائی بہت ہے


تمہاری یاد کتنی با وفا ہے
کہ جب آئی ہے تو آئی بہت ہے


کہا تھا تم نے تنہائی میں ملنا
اب آ جاؤ کہ تنہائی بہت ہے


تم اب صولتؔ کہو کچھ شوخ غزلیں
جو دل نے لی وہ انگڑائی بہت ہے