رنگ کا فرق مٹایا یہ شرف میرا تھا

رنگ کا فرق مٹایا یہ شرف میرا تھا
سنگ اسود تھا مرا در نجف میرا تھا


صبح بیعت کی وہ زہریلی ہوا تیری تھی
اور جو پھول تھا شمشیر بکف میرا تھا


رہ کے پانی میں بھی پانی سے بہت دور رہا
تھا جو دریا میں وفاؤں کا صدف میرا تھا


دین و دنیا میں رہی جنگ اندھیرے کے سبب
صبح کے وقت مگر میری طرف میرا تھا


اس کو کرنا ہی پڑا سر مرا اونچا صولتؔ
آج نیزے نے بھی سمجھا جو شرف میرا تھا