جس رات بھی چراغ شب غم رہا ہوں میں
جس رات بھی چراغ شب غم رہا ہوں میں
اس رات روشنی میں بہت کم رہا ہوں میں
غیروں سے دوستی کو بڑھایا ہے اپنا ہاتھ
خود کتنا اپنے آپ سے برہم رہا ہوں میں
خوشبو دل و دماغ میں اور وہ بھی اس قدر
پھولوں کا ہم نشیں تو بہت کم رہا ہوں میں
یہ شہر جسم و جاں مری پہچان بن گیا
اس شہر میں اگرچہ بہت کم رہا ہوں میں
کچھ پھول ہاتھ پر مرے کچھ خار جسم میں
صولتؔ یہ کس بہار کا موسم رہا ہوں میں