ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک
ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک
پھول بھی پھول نہ تھا خون میں تر ہونے تک
وہی حق دار ہے سورج کی کرن کا جس نے
رات کی زلف سنواری ہے سحر ہونے تک
تارے دیوانے نہیں ہیں کہ جو تھامے ہی رہیں
دامن شب کو گریبان سحر ہونے تک
پوچھئے خضر سے کیا وہ بھی رہیں گے زندہ
اپنی باتوں کا حبابوں پہ اثر ہونے تک
ایک آنسو کی طرح تم مجھے رخصت کرنا
روک لو پلکوں پہ آغاز سفر ہونے تک
زندگانی کی حقیقت کو نہ سمجھے صولتؔ
شاعری کرتے رہے عمر بسر ہونے تک