Saqi Faruqi

ساقی فاروقی

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

One of the most prominent and trend-setter modern poets

ساقی فاروقی کی نظم

    پام کے پیڑ سے گفتگو

    مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو وہی تتلیاں جمع کرنے کی ہابی ادھر کھینچ لائی مگر تتلیاں اتنی زیرک ہیں ہجرت کے ٹوٹے پروں پر ہوا کے دوشالے میں لپٹی مرے خوف سے اجنبی جنگلوں میں کہیں جا چھپیں۔۔۔ اور تھک ہار کر واپسی میں سرکتے ہوئے ایک پتھر سے بچتے ہوئے اس طرف میں نے دیکھا تو ایسا ...

    مزید پڑھیے

    توجیہہ

    تو کیا دیکھتا ہوں فضا نور ہی نور تھی پہاڑ اپنے اندر سے پھوٹے ہوئے درد سے جل رہا تھا پڑوسی سمندر سنہرا ہوا تھا بشارت ملی تھی ننوں، کاہنوں کے برہنہ ہجوم داہنے ہاتھ میں اپنے غم اور بائیں میں اپنے سوال اور رانوں میں گھوڑوں کی پیٹھیں پہن کر نکل آئے تھے روشنی کی طرف خامشی سے بڑھے جا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا

    اب یاد نہیں سینے میں کہیں اک سورج تھا سو ڈوب گیا اب اپنا دل ہے کھوٹ بھرا دنیا کو بدلنے اٹھے تھے دنیا نے بدل ڈالا کہ نہیں

    مزید پڑھیے

    فینٹیسی

    رات جمائیاں لے رہی ہے وصل کی سیپی جسم سے گہر پھوٹ رہے ہیں ایک اجنبی لڑکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ننگی اور اکڑوں بیٹھی ہوئی ہے وہ چمن کی آن ہے اور جان اس کی رات کی رانی میں رہتی ہے سوچ رہا ہوں میں اس کی الماری میں اپنے آپ کو تہہ کر کے رکھ دوں

    مزید پڑھیے

    حاجی بھائی پانی والا

    دونوں مشکیزے لبا لب ایک چمبک کی طرح اپنی جانب کھینچتے رہتے اسے فیل بندی قہر تھی مرد گاہک مسخری کرتے ہوئے ڈرتے ذرا محتاط رہتے جھرجھری کا سوانگ بھرتے عورتیں مغموم آنکھوں میں ترس کاڑھے ہوئے اپنے بچوں پر برس پڑتیں اگر وہ بد لحاظ بھولپن سے پوچھ لیتے کیوں نہیں اس کے فلانوں کی ...

    مزید پڑھیے

    بدگمانی

    جو ہو سکے تو ایک روز اعتبار کے عذاب سے گزار دے مجھے کہ احتمال اور ہے صفر نہیں تو پھر صفر سے جنگ کیا خدا کے واسطے مجھے بتا اگر کسی کا انتظار ہی نہ تھا تو ساری عمر کس کے انتظار میں گزر گئی جمال خاں اچک زئی میرا سوال اور ہے

    مزید پڑھیے

    سرخ گلاب اور بدر منیر

    اے دل پہلے بھی تنہا تھے، اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں اور ان زخموں اور داغوں سے اب اپنی باتیں ہوتی ہیں جو زخم کہ سرخ گلاب ہوئے، جو داغ کہ بدر منیر ہوئے اس طرح سے کب تک جینا ہے، میں ہار گیا اس جینے سے کوئی ابر اڑے کسی قلزم سے رس برسے مرے ویرانے پر کوئی جاگتا ہو کوئی کڑھتا ہو مرے دیر سے ...

    مزید پڑھیے

    محاصرہ

    خواب کی بالکنی بالکنی پر یہ سرکتی ہوئی پرچھائیں مری۔۔۔ سامنے بالکنی کے نیچے برف میں لتھڑا ہوا روشنی روتا ہوا بلب ابھی زندہ ہے ایک احساس زیاں باقی ہے رات کے زینۂ پیچاں سے اترنے لگی تنہائی مری اس کے کتبے پہ تباہی کا یہ تازہ بوسہ صرف بوسے کا نشاں باقی ہے نیم جاں دائرۂ نوحہ گراں ...

    مزید پڑھیے

    میں اور میں!

    میں ہوں میں وہ جس کی آنکھوں میں جیتے جاگتے درد ہیں درد کہ جن کی ہمراہی میں دل روشن ہے دل جس سے میں نے اک دن اک عہد کیا تھا عہد کہ دونوں ایک ہی آگ میں جلتے رہیں گے آگ کہ جس میں جل کر جسم ہوا خاکستر جسم کہ جس کے کچے زخم بہت دکھتے تھے زخم کہ جن کا مرہم وقت کے پاس نہیں ہے وقت کہ جس کی زد ...

    مزید پڑھیے

    صدمہ

    وہ سولہ بہاروں کے بعد دوبارہ ملا ہے تو کیا ہے کہ مختار کو دیکھ کر میری آنکھوں میں حیرت کے آثار پیدا ہوئے میرا دل بجھ گیا ہے وہ عیار یاروں کا یار اپنا لہجہ اسی طرح سے نرم ریز اور نظر تیز رکھے مگر اس سے کس نے کہا تھا کہ خوشبو، شراب اور عورت سے پرہیز رکھے۔۔۔۔۔۔

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4