میں اور میں!

میں ہوں میں
وہ جس کی آنکھوں میں جیتے جاگتے درد ہیں
درد کہ جن کی ہمراہی میں دل روشن ہے
دل جس سے میں نے اک دن اک عہد کیا تھا
عہد کہ دونوں ایک ہی آگ میں جلتے رہیں گے
آگ کہ جس میں جل کر جسم ہوا خاکستر
جسم کہ جس کے کچے زخم بہت دکھتے تھے
زخم کہ جن کا مرہم وقت کے پاس نہیں ہے
وقت کہ جس کی زد میں سارے سیارے ہیں
سیارے جو قائم ہیں اپنی ہی کشش پر
اور کشش کے تانے بانے ٹوٹ چلے ہیں
کون تماشائی ہے؟ میں ہوں۔۔۔ اور تماشا
میں ہوں میں!