Saqi Faruqi

ساقی فاروقی

ممتاز اوررجحان ساز جدید شاعر

One of the most prominent and trend-setter modern poets

ساقی فاروقی کی نظم

    گھر

    دو رستے ہیں دونوں تیرے گھر جاتے ہیں اس رستے سے تین برس میں گھر پہنچے گا اس پر سات برس لگتے ہیں جس پر سات برس لگتے ہیں وہ رستہ ہموار بھی ہے اس رستے کے دونوں جانب شہر بھی ہے بازار بھی ہے تین برس والے رستے کے بیچ میں جنگل پڑتا ہے جنگل جس میں برس برس تک سونے والے کالے اژدر اپنے مقناطیسی ...

    مزید پڑھیے

    پارٹی

    رم اور جن کی خالی بوتلو اخباروں میں چھپے ہوئے بے مصرف لفظو اسٹرپٹیز کلب کے پھٹے پرانے ٹکٹو کوٹ کے کالر کے افسردہ تنہا پھولو ٹیب رکارڈ میں سہمے سہگل کے نغمو دوستیوں اور دشمنیوں کے زندہ لمحو کانپتے ہونٹوں پر کمھلاتے، مونیکا کے آخری بوسو گھیرا ڈال کے میرے گرد کھڑے ہو جاؤ ناچو گاؤ ...

    مزید پڑھیے

    نوحہ

    یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے میں تیری یادوں کی ساری شمعیں بجھا کے خوابوں میں چل رہا ہوں تری محبت مجھے ندامت سے دیکھتی ہے وہ آبگینہ ہوں خواہشوں کا کہ دھیرے دھیرے پگھل رہا ہوں یہ میری آنکھوں میں کیسا صحرا ابھر رہا ہے میں بال روموں میں بجھ رہا ہوں شراب خانوں میں جل رہا ...

    مزید پڑھیے

    ایک سور سے

    وہ طلسمی دوپہر تھی سانس لیتے گھاس کے میدان میں سبز مٹی سے شعاعیں اگ رہی تھیں اور تم کرنوں میں اپنے تھوتھنے گاڑے ہوئے دندناتے پھر رہے تھے میں تمہاری جان کا دشمن انا کے ہش پپی جوتے پہن کر اپنے کینے کا نیا کمپا لیے برتری کے بنچ پر محجوب سا بیٹھا ہوا اک پرانے جھوٹ سے دامن چھڑانا ...

    مزید پڑھیے

    پوسٹر

    یاد کی دیوار ہے دیوار پر ایک پوسٹر اور پوسٹر میں کامنی۔۔۔ سبز آنکھیں بے کراں آنکھیں تری کلبۂ نسیان میں اور برف کے طوفان میں دھندلی ہوئیں، خالی ہوئیں یہ فنا کے گرم بوسوں کے نشاں جل گیا مٹی کا رس رائیگاں سب رائیگاں

    مزید پڑھیے

    مستانہ ہیجڑا

    مولا تری گلی میں سردی برس رہی تھی شاید اسی سبب سے مستانہ ہیجڑا بھی وسکی پہن کے نکلا ٹینس کے بال کستی انگیا میں گھس گھسا کے پستان بن گئے تھے شہوت کے سرخ ڈورے سرمہ لگانے والی آنکھوں میں تن گئے تھے اک دم سے چلتے چلتے اس نے کمر کے جھٹکے سے راہ چلنے والے شہدوں، حرام خوروں سے التفات ...

    مزید پڑھیے

    دیوار

    رگوں میں ناچ رہا ہے اک آتشیں زہراب تری تلاش فقط جسم کا تقاضا ہے تری طلب کے جہنم میں جل رہا ہے بدن لہو پکارتا ہے کیا سنا نہیں تو نے کہ میں نے روح کی دیوار ہی گرا دی ہے

    مزید پڑھیے

    خرگوش کی سرگزشت

    رقص شام کھڑی ہے بھوری جھاڑیوں، پیلی گھاسوں کے خیموں سے باہر نکلو نرم ہوائیں بالوں کی جھالر سے گزرتی لمبے لمبے کانوں میں خرگوشی کرتی ہیں سرخ کونپلیں سبز پتیاں سانپ چھتریاں۔۔۔ جنگل میں گودام کھلا ہے پاگل اپنے بیکل نتھنوں میں اس خوش بو کا چھلا ڈال کے رقص کرو ہر خطرے کو چکمہ دو چور ...

    مزید پڑھیے

    شیر امداد علی کا میڈک

    مگر تنگ نظر مٹیالے تالاب میں اس ادھ کھلے کنول پر وہ بہار تھی جو دیکھنے والی آنکھوں میں دھنک کھلاتی ہے پھر پانی کا بلاوا الگ تھا اس ساحرانہ کشش سے ہار کر اپنا تہمد اتار کر وہ مردہ پانی میں کود پڑے جل کنبھی سے الجھے تو ہفتے عشرے کے حمل کے مانند نرم اور خام سروں والے گل ...

    مزید پڑھیے

    ڈسٹ بن

    صبح کے جگ مگ سورج کو شام کے نارنجی بادل میں کیوں گہناتی ہو وہ کیا اندیشہ ہے جس کے بڑھتے قدموں کی دھمک سنی اور تم نے اپنے آنسو اپنے اندر گرا لیے اپنی روح میں نوحے جمع کیے اور نسیاں کی ڈسٹ بن میں پھینک دئیے وہ کون سا مجرم درد ہے جس کو دل کے شب خانوں میں چھپائے جس کے نادیدہ شعلوں سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4