محاصرہ
خواب کی بالکنی
بالکنی پر یہ سرکتی ہوئی پرچھائیں مری۔۔۔
سامنے بالکنی کے نیچے
برف میں لتھڑا ہوا
روشنی روتا ہوا بلب ابھی زندہ ہے
ایک احساس زیاں باقی ہے
رات کے زینۂ پیچاں سے اترنے لگی تنہائی مری
اس کے کتبے پہ تباہی کا یہ تازہ بوسہ
صرف بوسے کا نشاں باقی ہے
نیم جاں دائرۂ نوحہ گراں باقی ہے
روح کے تار کھنچے ہیں جن پر
وقت واماندہ پرندے کی طرح
ل
ٹ
ک
ا
ہوا چیختا ہے
موت اطراف و جوانب میں
کسی وحشی درندے کی طرح پھرتی ہے
جسم کے چاروں طرف
درد کی تاریک فصیل
ذات کے حبس میں کمھلا گئی آواز مری
غم کے یلغار سے دل بند ہوا
قلب پیوندئ غم تو ہوگی
شہر میں کوئی دھڑکتا ہوا دل
۔۔۔دل کی کوئی تازہ قلم تو ہوگی